کوئی بھی مرض لاعلاج نہیں،علاج ضروری
امیتاز احمد نورانی
ایک مرتبہ صدر جمہوریہ ہند کے معالج خصوصی، ہندوستان کے معروف ماہر امراض قلب ”ہارٹ اسپیشلسٹ“ اور رام منوہر لوہیا اسپتا ل کے سینئر ریژیڈنٹ ڈاکٹر پروفیسر محسن ولی صاحب نے اپنے ایک خصوصی انٹر ویو میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے برجستہ کہا تھا کہ کوئی لاکھ پروپیگنڈے کرلے اور ملک سمیت دنیا کے متعدد ممالک میں رائج دیسی طریقہ علاج کا قد چھوٹا کرنے کی سازش کرے اور خاص کرمسلمانوں کے ساتھ ہندوستان میں قدم رکھنے والے یونانی طریقہ علاج کو منصوبہ بند طریقے سے بے نام و نشان کرنے کیلیے ایڑی چھوٹی کا زور لگا دے۔مگرحقیقت یہی کہ ان اوچھی ترکیبوں سے نہ طب یونانی بشمول تمام دیسی طریقہ ہائے علاج کو ختم کیا جاسکتا ہے اور نہ اس کی افادیت سے انکار کیا جاسکتا ہے۔ ڈاکٹرپروفیسر محسن ولی نے کہا تھا کہ جہاں سے ماڈرن سسٹم آف میڈیسن یعنی جدید طریقہ علاج کسی بیماری کے علاج سے ہاتھ اٹھا لیتا ہے، وہاں سے خاص طور پر یونانی طریقہ علاج اور دیگر دیسی طریقہ ہائے علاج کا سفر شروع ہوتا ہے۔ اس وقت انٹرویو کے دوران ایک معروف ہارٹ اسپیشلسٹ اور ایلوپیتھک طریقہ علاج کے مسلمہ اسکالرکی یہ بات ہضم نہیں ہورہی تھی، بلکہ سمجھ سے بالا تر لگ رہی تھی۔ مگر جب عملی طور پر بڑے بڑے معروف اور خود کو اسپیشلسٹ کہنے والے سیکسولوجسٹ ایم بی بی ایس اور ایم ڈی ڈاکٹروں کو دھڑلے سے دیسی اور یونانی نسخے، معجون، کشتہ جات، مرکبات اور سفوف استعمال کرتے ہوئے دیکھا تو مجبوراً ڈاکٹر محسن ولی صاحب کے دعوے کو قبول کرنا پڑا۔سوال یہ ہے کہ کیا اس سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ جو ایلوپیتھک معالج یونانی یا آیورد ویدک علاج کررہا ہے، وہ اس کی پیتھی نہیں ہے، اس نے اس طریقہ علاج کے فارما کوپیا ”قرابادین“ کی الف ب بھی نہیں پڑھی ہے۔پھر اس ایم بی بی ایس ڈاکٹر کیخلاف حکومت کی جانب سے قانونی کارروائی کرنے کی تجویز وزارت صحت و خاندانی بہبود حکومت ہند کے پاس کیوں نہیں ہے، اس کے برعکس یونانی معالجین جنہیں ایلوپیتھک فارما کوپیا کے بنیادی اجزا خاص طور پر پڑھائے بھی جاتے ہیں، انہیں بعض ایلو پیتھک دوائیں تجویز کرنے سے روکا کیوں گیا ہے اور ان دواؤں کو تجویز کرنے والے یونانی معالجین کے خلاف قانونی تعزیرات کیوں لاددی جاتی ہیں ۔ یہ اس وقت ایک چبھتا ہوا سوال ہے، جسے یونانی، آیور ویدک سمیت تمام دیسی طریقہ علاج کے معالجین اور انسٹی ٹیوشنز کو متحد ہوکراٹھاناچاہیے۔
قارئین جب سے موذی مرض شوگر نے منہ کھولا ہے، اس وقت سے ماڈرن سسٹم آف میڈیسن ”ایلوپیتھک“ میں اس پر تحقیق اور ریسرچ ہی چل رہی ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ابھی تک ایلوپیتھک میڈیسن کے ریسرچ انسٹی ٹیوشنز ایسی کوئی دوا ایجاد کرنے میں ناکام ہیں، جسے دعوے کے ساتھ مریض کو دیتے ہوئے یہ کہا جاسکے کہ اس سے آپ کے شوگر کاعارضہ جڑ سے ختم ہوجائے گا۔ معاف کیجئے گا ہم نے ملک کے نامی گرامی ماہر ذیابیطسMBB,MD. Best Specialist Endocrinologist, Diabetologist, Thyroid ڈاکٹروں کوطب یونانی کی پھکی، سفوف اور چورن، کھٹی میٹھی گولیاں اور عرقیات و مشروبات لکھتے ہوئے دیکھا ہے۔شوگر کے مریضوں کو معروف آیورویدک دوا ساز کمپنی ہمالیہ ڈرگس کی درجنوں دواؤں کو لکھتے ہوئے دیکھا ہے۔ ہمالیہ کا ڈیابی کون، سیپٹلین، سسٹون، لیو 52اور اس قسم کی دوسری یونانی وآیورد ویدک کمپنیوں کی بے شمار دوائیں ایلوپیتھک ڈاکٹرس مریضوں کو ضرور لکھتے ہیں، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ابھی بھی ایلوپیتھک سسٹم آف میڈیسن ان گنت بیماریوں کے مکمل علاج کے معاملے میں کافی پیچھے ہے، جبکہ یونانی اور آیورویدک محققین نے ان بیماریوں کا علاج ہزاروں برس پہلے ہی پیش کردیا تھا اور اپنے قیمتی نسخوں کے ذریعہ ان تمامبیماریوں کا شافی علاج بھی کیا تھا، جنہیں ابھی تک ماڈرن سسٹم آف میڈیسن لاعلاج سمجھ کر مریضوں اسپتال سے نامراد لوٹا ر ہے ہیں ۔ایسی درجنوں بیماریوں کے نام پوری تحقیق اور ثبوت کے ساتھ پیش کئے جاسکتے ہیں جو یونانی وآیور ویدک طریقہ علاج میں صد فیصد قابل علاج ہیں، بھلا مسلم معالجین اس سے کیسے انکار کرسکتے ہیں، جبکہ انہیں محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بتا رکھا ہے کہ ”ما انزل اللہ داء ینزل لہ شفاء“ یعنی خالق کائنات نے ایسی کوئی بیماری پیدا ہی نہیں کی ہے، جس کی پہلے سے ہی دواء پیدا نہ کی ہو۔ لہذ ا ہربیماری کا علاج موجود ہے، البتہ اس تک پہنچنا اور اس پر ریسرچ کرنا معالجین اور محققین کا کام ہے۔علاوہ ازیں قرآن حکیم میں ارشاد ربانی ہے۔”لاتقنطو من رحمۃ اللہ“ یعنی اللہ کی رحمت سے کبھی مایوس مت ہونا“۔ مذکورہ بالا فرمان خداوندی کی روسے اہل ایمان کیلیے مایوسی کفر ہے۔ان رشادات کو ہمیشہ سامنے رکھنے والا معالج یا طبیب اس بات سے کیسے انکار کرسکتا ہے کہ کوئی بھی بیماری لاعلاج نہیں ہے۔اس موقع پر ان درجنوں بیماریوں میں سے ہم صرف ہیپاٹائٹس کے بارے میں تفصیلات بیان کریں گے، جسے ماڈرن سسٹم آف میڈیسن نے لگ بھگ لاعلاج تصور رکھا ہے، جبکہ طب یونانی یعنی دیسی طریقہ علاج میں اس کا فطری اور شافی علاج موجود ہے۔اس کے بعد کی قسطوں میں ایک کرکے ان تمام بیماریوں کا تذکرہ کیا جائے گا جنہیں جدید سائنس کے ماہر ڈاکٹروں نے لاعلاج قرار دے کر عوام کو بے چین بنا رکھا ہے۔تو آئیے دیکھتے ہیں کہ ہیپا ٹائٹس کے سلسلے میں طب یونانی کیا مشورے دیتی ہے۔
ہیپا ٹائٹس سی ”سوزش جگر“ کو ایک مشکل العلاج مرض تصور کیا جاتا ہے اور اسکے لیے نہایت مہنگی ترین ویکسین استعمال کروائی جاتی ہیں، حالانکہ یہ ایک احمقانہ اور جاہلانہ پروپیگنڈہ ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہیپاٹائٹس قابل علاج بیماری ہے اور صبرو تحمل کے ساتھ اگر اس کا یونانی دواؤں سے علاج کیا جائے تو یہ مرض جڑ سے ختم ہوجاتا ہے۔
اس وقت ماڈرن سسٹم آف میڈیسن اس کیلیے ایک ویکسین متعارف کراچکی ہے۔ جس سے جگر میں ضرورت سے زیادہ سوداء کو پیدا کرکے اس بیماری کے وائرس کو ڈیڈ کرنے کا کام کیا جاتا ہے۔حالانکہ حقیقی صورت حال یہ ہے کہ وہ ویکسین بھی اکثر و بیشتر ناکام رہتی ہے۔ بالخصوص ان مریضوں کے لیے جو اس بیماری کے حملہ آور ہونے سے پہلے بھی ضعف جگر کے مریض ہوں اور جن پر یہ ویکسین کارگر ثابت ہوتی ہے ان میں بھی یہ ویکسین وائرس کو ڈیڈ تو کر دیتی ہے لیکن اسکا اخراج نہیں کر پاتی۔اسی وجہ سے ایلوپیتھک طرز علاج میں اسے نہایت خطرناک اور مشکل العلاج بلکہ بسا اوقات ناقابل علاج مرض سمجھا جاتا ہے۔ خیال رہے کہ ہیپا ٹائٹس جگر میں انفیکشن کا باعث ہونے والی سوزش اور ورم کا نام ہے۔ انفیکشن کی زیادہ تر وجہ وائرس ہے، جبکہ بعض اوقات شراب، کچھ ایلو پیتھک ادویات کا بے جا استعمال یا انسان کے اپنے مدافعاتی نظام کی خرابی بھی اس کا باعث بن سکتی ہے۔ میڈیکل سائنس جگر کو انسانی جسم کا سب سے برا عضو اور گلینڈ تصور کرتی ہے، جو جسم کے سب سے اہم کام سرانجام دیتا ہے۔ جس کاکام جسم کے فاسد زہریلے مادے نکالنا، وٹامنز اور کئی ضروری غذائی اجزا کو ذخیرہ کرنا، خوراک ہضم کرنا اور جسم کی ضرورت کے مطابق اس خوراک سے توانائی حاصل کرنا (میٹابولزم کا عمل) ہے، جسمانی ضرورت کے مطابق پروٹین تیار کرنا، خوراک ہضم کرنے کے لیے کیمیکل بنانا، شوگر اور کولیسٹرول کی مقدار کو توازن میں رکھنا، گلوکوز ذخیرہ کرنا اور ضرورت پڑنے پر اس سے توانائی حاصل کرناہے۔ جسم کے یہ سب سے اہم کام جگر کے خراب ہونے پر متاثر ہو جاتے ہیں ۔ آج کل جگر خرابی کی سب سے بڑی وجہ وائرس سے ہونے والے انفیکشنہیں ۔ اگر انفیکشن چھ ماہ سے کم ہے تو Acute کہلائے گااور اگر اس کا دورانیہ چھ ماہ سے بڑھ جائے تو Chronic کہلائے گا۔ وائرس سے ہونے والے انفیکشن عموماً وائرس A,B,C,D,E سے ہوتے ہیں ۔
وائرس سی’C‘ سے ہونے والا ہیپاٹائٹس بڑی خاموشی سے جگر کو نقصان پہنچاتا ہے۔ اس وائرس کے کرونک ہونے یا دائمی ہونے کا رسک سب سے زیادہ ہے۔ جگر کو جتنا زیادہ نقصان ہو گا، جگر کے سرطان کا خطرہ بھی اتنا ہی بڑھ جائے گا۔ البتہ یہ عمل سالوں پر محیط ہے۔ سی وائرس خون کے ذریعے ایک سے دوسرے شخص میں منتقل ہوتا ہے۔ متاثرہ شخص کی استعمال کردہ سرنج، سوئی، بلیڈ، ناک کان چھدوانے والا آلہ، جسم پر ٹیٹو بنوانے کا آلہ، دانت کا علاج کرنے والے آلات یا ایسے کوئی بھی آلات جو جسم میں داخل ہو کر جلد کے اندر یا خون میں شامل ہوکر وائرس کو منتقل کرنے کی وجہ بنتے ہیں ۔ سی وائرس کی کوئی خاص زیادہ علامات نہیں ہوتیں ۔اگر ہوں تو بھوک کی کمی، وزن میں کمی، متلی قے، جسم پر خارج، پیلی رنگت ہو سکتے ہیں ۔
ہیپاٹائٹس بی کے پھیلاؤ کے طریقے بھی وائرس سی جیسے ہی ہیں ۔ حاملہ ماں سے بچے کو اور ازدواجی تعلقات سے بھی وائرس پھیلتا ہے۔ ماں سے بچے کو منتقل ہونے والے 95 فیصد بچوں میں مرض دائمی کرونک بن جاتا ہے۔ ایسے مریض جن میں یرقان ہو جائے، ان میں کرونک اسٹیج کا خدشہ کم ہو جاتا ہے۔ ہیپاٹائٹس بی کی علامات فلو، نزلہ، زکام، ہلکا بخار، تھکن، جسم درد، سردرد، متلی، بھوک کی کمی، پیٹ در د، دست یا قبض، جلد پر دھبے، یرقان اور جوڑوں میں درد ہو سکتاہے۔ ہیپاٹائٹس اے کا وائرس فضلے سے خارج ہوتا ہے اور آلودہ پانی اور خوراک سے صحت مند شخص میں منتقل ہوتا ہے۔ یہ کچھ عرصہ میں جسم سے ختم ہو جاتا ہے، لیکن اس کی علامات میں یرقان، قے متلی، دست، بخار سرفہرست ہیں ۔دنیا بھر میں ہونے والی زیادہ تر ہلاکتیں وائرل ہیپاٹائٹس اور اس کی پیچیدگی کے باعث ہوتی ہیں ۔