مضامین

مراٹھا تحریک کامیاب، مگر سماجی اتحاد پر بڑھ گئے سوالیہ نشان؛ ہندو تنظیموں کی غیر موجودگی پربرادری میں مایوسی کی لہر؛ سماجی تانے بانے پر نئے سوال، مہاراشٹر کی سیاست میں نئے امکانات ؛ پڑھیں تفصیلی رپورٹ

اقلیتوں اور دلتوں کی مدد کو تحریک کی کمزوری سمجھا گیا

کاوش جمیل اسپیشل رپورٹ
پانچ دن کی بھوک ہڑتال، حکومت کے سامنے جھکاؤ، اور آخرکار مطالبات کی منظوری۔ یہ سب کچھ بظاہر مراتھا برادری کی ایک بڑی کامیابی کے طور پر درج کیا جائے گا۔ مگر اس تحریک نے صرف سیاسی فائدہ ہی نہیں دیا بلکہ مہاراشٹر کے سماجی نقشے پر ایسے سوالات کھڑے کر دیے ہیں جو آنے والے دنوں میں مزید گہرے ہو سکتے ہیں۔
سب سے نمایاں پہلو یہ رہا کہ ہندو تنظیمیں، جنہیں مراتھا برادری قریب ترین سماجی اور ثقافتی رشتہ دار سمجھتی ہے، اس تحریک میں مکمل طور پر غیر حاضر رہیں۔ نہ حمایت، نہ سہولت، نہ اظہارِ یکجہتی۔ بلکہ بعض حلقوں میں یہ تاثر بھی پیدا ہوا کہ مراتھا مظاہرین کو مشکلات میں ڈالنے پر ہی زیادہ توجہ دی گئی۔ یہ رویہ مراتھا سماج کے لیے ایک تلخ تجربہ ثابت ہوا۔
اس خلا کو مسلمانوں، سکھوں اور دلتوں نے پُر کیا۔ انہوں نے کھانے پینے کا انتظام کیا، پانی پہنچایا، اور تھکن سے چُور مظاہرین کو سہارا دیا۔ یہ ایک ایسا منظر تھا جس نے واضح کیا کہ انسانی ہمدردی مذہب یا برادری کی سرحدوں سے بڑی ہے۔ احمد نگر اور اطراف سے بھیجی جانے والی بھاگری، چپاتی، اچار اور پانی کی گاڑیاں اس سماجی ہم آہنگی کی زندہ مثال تھیں۔
یہ سچ ہے کہ منوج جرانگے پاٹل نے اپنی تحریک کو کامیابی کی منزل تک پہنچایا، لیکن تحریک کے بعد مراٹھا برادری کے کچھ حلقے سخت ناراض دکھائی دیے۔ ان کا خیال ہے کہ باہر والوں کی مدد نے تحریک کی خودمختاری کو متاثر کیا اور یہ ایک کمزوری کے طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔ یہ ناراضگی اس بات کا ثبوت ہے کہ کامیاب تحریک بھی سماجی دراڑوں کو اجاگر کر دیتی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا مراٹھا سماج اس تجربے کو محض وقتی امداد سمجھ کر بھلا دے گا، یا پھر یہ واقعہ مہاراشٹر میں سماجی صف بندی کی نئی بنیاد ڈالے گا؟ کیا ہندو تنظیموں کی خاموشی اور اقلیتی طبقات کی مدد آنے والے دنوں میں ایک نیا بیانیہ جنم دے گی؟
مراٹھا تحریک کی کامیابی ایک تاریخی لمحہ ہے، لیکن یہ لمحہ ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ سماجی اتحاد کہاں کھڑا ہے۔ جب قریبی سمجھے جانے والے پیچھے ہٹ جائیں اور دوسرے آگے بڑھ کر ہاتھ تھام لیں، تو یہ صرف ایک احتجاج کی کہانی نہیں رہتی،یہ پورے معاشرتی ڈھانچے کی نئی تشریح بن جاتی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!