
ممبئی :لاوڈاسپیکرپرہائی کورٹ کا فیصلہ صرف مساجد کےلئے نہیں ،پولیس کااقلیتی فرقے سے امتیازی سلوک
ممبئی:31مئی: ( یواین آئی) :ممبئی میں مساجد سے زبردستی لاوڈاسپیکرہٹانا،ہائی کورٹ کے فیصلہ کی سراسرخلاف ورزی ہے،کیونکہ عدالت عالیہ نے صرف مساجد کیلئے فیصلہ نہیں دیا بلکہ سبھی مذاہب اور سماجی سرگرمیوں پر اس کا اطلاق ہوتا ہے۔س کااظہارسماج وادی پارٹی کے رہنما ابو عاصم اعظمی نے ممبئی مراٹھی پترکار سنگھ میں فیڈریشن آف ٹرسٹی مسجد کی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا اور انہوں نے کہا کہ ملک آئین کے اصولوں اور تمام مذہبی مقامات اور صوتی آلودگی کے خلاف ممبئی ہائی کورٹ کے فیصلے پر چلے گا۔ا بوعاصم نے الزام لگایا کہ لیکن اس کی آڑ میں بی جے پی لیڈر کرٹ سومیا صرف مسلمانوں کو نشانہ بنانے اور مساجد کو نشانہ بنانے کی کوشش کررہے ہیں اوروہ پولیس پر مسلسل دباؤ بنارہے،نا کا مقصد دو فرقوں کے درمیان نفرت پیدا کرنے، ماحول خراب کرناہے۔ کریٹ سومیا کی اس قسم کی سرگرمیوں اور مذہبی منافرت پھیلانے کے لیے ان کے خلاف حکومت سے مقدمہ درج کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے، بصورت دیگر مقدمہ درج کرنے کے لیے عدالت سے بھی رجوع کیا جائے گا تاکہ اس کے خلاف جلد از جلد مقدمہ درج کیا جائے۔ ابو عاصم اعظمی نے کہا کہ مقامی ہندوؤں کو مساجد کے اذان اور لاؤڈ اسپیکر پر کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن کچھ شرپسند عناصر کی شکایت پر کارروائی کی جارہی ہے۔ صرف ووٹ بینک کی خاطر ماحول کو خراب کیا جا رہا ہے۔ مساجد سے لاؤڈ سپیکر ہٹانا امن و امان کے لیے خطرہ ہے۔ اس لیے پولیس کو بھی اس طرف توجہ دینی چاہیے کیونکہ ممبئی میں بھی ہندوؤں اور مسلمانوں کو تقسیم کرنے اور مذہبی منافرت پھیلانے کی سازش رچی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مہاراشٹر میں کس طرح مذہبی منافرت پھیلائی جا رہی ہے اور فرقہ پرستی بڑھ رہی ہے اس کی مثال یہ ہے کہ کونکن میں ایک طالب علم نے پاکستان زندہ باد کا نعرہ نہیں لگایا ،لیکن یہ الزام عائد کرکے اس کا گھر زمین بوس کر دیا گیا۔ اگر کوئی انہوں نے مزیدکہا کہ مساجد سے لاؤڈ سپیکر ہٹانا غیر قانونی ہے۔ یوپی میں رات بھر بھجن اور جاگرن جاری رہتا ہے۔ اس کے خلاف کارروائی کا کبھی کسی مسلمان نے مطالبہ نہیں کیا ہے۔
بی جے پی لیڈر کریٹ سومیا کے دباؤ میں پولیس مساجد سے لاؤڈ اسپیکر ہٹانے پر مجبور ہے۔ کریٹ سومیا کے خلاف مقدمہ درج ہونا چاہیے کیونکہ وہ فرقہ پرستی کو ہوا دے کر ماحول خراب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پولیس کمشنر سے مطالبہ ہے کہ وہ مساجد کے لاؤڈ اسپیکرز کو ہٹانے کی اجازت نہ دیں کیونکہ وہ قانونی حدود میں لاؤڈ اسپیکر کا استعمال کرتے ہیں۔۔
اس موقع پرایڈووکیٹ خالد انصاری نے کہا کہ مساجد کے لاؤڈ سپیکر کے خلاف کارروائی جاری ہے۔ بامبے ہائی کورٹ نے ایک فیصلہ دیا تھا، جس میں رہنما خطوط جاری کیے گئے تھے۔ ہائی کورٹ میں نئی درخواست دائر کر دی گئی۔ اس میں عدالت نے 2016 میں جاری کیے گئے فیصلے کا حوالہ دیا ہے، جس میں رہنما اصول طے کیے گئے تھے۔ اس میں تمام چیزوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ صوتی آلودگی کے حوالے سے جو بھی فیصلہ جاری ہوا، ہائی کورٹ نے اپنے حکم میں ک مذہبی تقریبات میں ہر قسم کی صوتی آلودگی پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ یہ فیصلہ کسی ایک مذہب کے لیے نافذ نہیں کیا گیا۔ اس فیصلے میں عدالت نے عبوری حکم نامے کا جائزہ لیا۔
انہوں نے کہاکہ عدالت نے کہا ہے کہ لاؤڈا سپیکر استعمال کرنے سے پہلے اجازت لینی ہوگی۔ ڈیسیبل بھی مقرر کر دیے گئے ہیں۔ مسجد نے لاؤڈ اسپیکر لگانے کی اجازت مانگی تو انہیں اجازت دے دی گئی۔ دونوں فیصلوں میں لاؤڈ اسپیکر کی ساخت کا فیصلہ نہیں کیا گیا۔ باکس ٹائپ کی اجازت دی جا رہی ہے، جو ہائی کورٹ کے فیصلے میں شامل نہیں ہے۔ مسجد میں نصب ا سپیکر صوتی آلودگی کا باعث بنے تو ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ پہلی شکایت پر وارننگ، دوسری بار نوٹس اور تیسری بار جرمانہ اور کارروائی کا بندوبست ہونا چاہیے۔ صوتی آلودگی کے حوالے سے آگاہی مہم چلانے کی بھی ضرورت ہے۔ یہ کسی ایک مذہب کے لیے نہیں بنایا گیا، یہ تمام مذاہب پر نافذ ہوتا ہے۔
پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کارگزر صدر ایس پی ایڈوکیٹ یوسف ابراہانی نے کہا کہ کریٹ سومیا کی اشتعال انگیزی سے ماحول خراب کرنے کی سازش شروع ہو گئی ہے۔ پولیس اب ہر مسجد میں جا کر مبلغین، اماموں اور مساجد کے ٹرسٹیز کو ہراساں کر رہی ہے۔ قانون تمام مذاہب کے لیے یکساں اور مساوی ہے لیکن قانون کا استعمال صرف مسلمانوں پر کیوں ہو رہا ہے؟ یہ معاملہ جلد عدالت میں بھیجا جائے گا۔ بیئر بار کا لائسنس رات 12 بجے تک ہے، لیکن بار رات بھر کھلا رہتا ہے۔ اس پر پولیس کارروائی نہیں کرتی صرف مساجد پر کارروائی کرتی ہے۔اس موقع پر جنرل سکریٹری معراج صدیقی اور اقلیتی سیل کے صدر سعید خان ابوبکر بھی موجود رہے۔
یواین آئی / اے اے اے