مہاراشٹرمیں مسلمانوں کو OBC ریزرویشن کا فائدہ ؛ ایک حقیقت اورایک سوال

کاوش جمیل کی اسپیشل رپورٹ
مہاراشٹر میں ریزرویشن کی سیاست برسوں سے جاری ہے۔ مراٹھا سماج کے مطالبات ہوں یا دلت و آدیواسی طبقات کے حقوق، ہر دور میں اس پر بحث چھڑتی رہی ہے۔ لیکن اس سارے شور شرابے کے بیچ ایک اہم طبقہ، یعنی مسلمان، اکثر پس منظر میں رہ جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کو ریزرویشن کے نظام سے اب تک کتنا فائدہ ہوا ہے اور مستقبل میں کیا امکانات ہیں؟
سرکاری ریکارڈ کے مطابق مہاراشٹر کی کئی مسلم برادریاں OBC کی فہرست میں شامل ہیں۔ ان میں جلہا/انصاری، مومن، پنجرہ/منصوری/نَدّاف، مسلم بیلدار اور باغبان/رَیّین جیسی برادریاں نمایاں ہیں۔ ان برادریوں کے افراد کو ریاست کے 19 فیصد OBC کوٹے سے اعلیٰ تعلیم اور سرکاری ملازمتوں میں مواقع حاصل ہوتے ہیں۔ سال 2014 میں ریاستی حکومت نے مسلمانوں کے لیے علیحدہ 5 فیصد ریزرویشن کا اعلان کیا تھا۔ عدالت نے تعلیمی ریزرویشن کو برقرار رکھا، مگر ملازمتوں میں یہ نافذ نہ ہو سکا۔ بعد کی حکومتوں نے وعدے تو کیے مگر مستقل قانون سازی نہ ہونے کے باعث یہ فیصلہ آج بھی محض ایک کاغذی نوٹ بن کر رہ گیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ مسلم نوجوانوں کا اصل سہارا OBC اور EWS کے تحت ملنے والے مواقع ہی ہیں۔
جہاں تک یہ سوال ہے کہ مسلمانوں نے اب تک کتنا فائدہ حاصل کیا تو اس کا سیدھا جواب یہ ہے کہ کوئی جامع سرکاری ڈیٹا دستیاب نہیں جس میں بتایا گیا ہو کہ OBC کوٹے میں کتنی نشستیں مسلمانوں نے حاصل کی ہیں۔ تاہم زمینی حقیقت یہ ہے کہ ہزاروں مسلم طلبہ و نوجوان OBC زمرے سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ جن مسلمان خاندانوں کا تعلق OBC برادریوں سے نہیں ہے، وہ EWS کے 10 فیصد کوٹے سے آگے بڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
المیہ یہ ہے کہ مسلمانوں کو ایک الگ اور مستقل ریزرویشن دینے کے معاملے میں ہر حکومت نے سیاسی وعدے تو کیے، مگر عمل کے میدان میں کوئی سنجیدہ قدم نہیں اٹھایا۔ آج بھی مسلم سماج کے تعلیمی اور روزگار کے اشاریے پسماندگی کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اگر حکومت واقعی مساوات اور انصاف کی بات کرتی ہے تو اسے اس کمیونٹی کی تعلیمی و سماجی ضرورتوں کو سنجیدگی سے دیکھنا ہوگا۔
فی الحال مسلمانوں کو OBC اور EWS کے نظام سے ہی فائدہ مل رہا ہے۔ یہ فائدہ حقیقی بھی ہے اور مسلسل جاری بھی۔ لیکن ایک بڑا سوال یہ ہے کہ کیا ایک ایسی کمیونٹی جو آبادی کا تقریباً 12 فیصد ہے، صرف جزوی سہولتوں پر اکتفا کرے گی یا پھر اس کے جائز حقوق کے لیے کوئی پائیدار حکمت عملی وضع ہوگی؟ یہی سوال آج کے مہاراشٹر کے سیاسی منظرنامے پر گونج رہا ہے۔