ہاتھ اُٹھانا تو دور کی بات….. والد محترم نے ہمیں کبھی غصہ تک نہیں کیا…..ہاشمی سید شعیب قمرالدین

ہاشمی سید شعیب قمرالدین
اگر کوئی یہ دعویٰ کرے کہ ایک باپ نے اپنی پوری زندگی میں اپنی اولاد کو نہ ڈانٹا، نہ غصہ کیا، نہ ہاتھ اٹھایاتو شاید دنیا یقین نہ کرے۔ مگر میں گواہی دیتا ہوں، یہ سچ ہے۔یہ کرشمہ ہمارے والدِ محترم قمرالدین صاحب کی شخصیت کا تھا، جو صبر اور شفقت کی ایسی زندہ مثال تھے جس کی نظیر ڈھونڈنا مشکل ہے۔ابا کی 80 برس کی زندگی صبر، سکون اور محبت کی اعلیٰ ترین مثال تھی۔ ہم سات بھائی اور ایک بہن آج فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ کبھی اپنے والد کو غصے میں نہ دیکھا۔ وہ کبھی ہمیں گھور کر بھی نہ دیکھتے۔ اگر کبھی کوئی بات ناگوار گزرتی بھی تو خاموشی اختیار کرتے یا صرف دل ہی دل میں ناراض ہو جاتے۔ ان کی زبان پر سختی کا کوئی لفظ نہ آتا، آنکھوں میں غصے کی کوئی جھلک نہ دکھائی دیتی۔ابا کی تربیت میں ڈر نہیں تھا، خوف نہیں تھا، بس محبت اور نرمی تھی۔ یہی نرمی ہماری تربیت میںسب سے بڑی طاقت بنی۔
بچپن کے دن یاد آتے ہیں۔ جب میں گلی میں دوستوں کے ساتھ کھیل رہا ہوتا اوردوستوں کے والدین اگر قریب سے گزرتے تو میرے دوست خوف کے مارے بھاگ جاتے۔ میں سوچتا تھا، یہ اپنے والد سے یوں کیوں ڈرتے ہیں؟ اور میرا دل تو ابا کو دیکھ کر خوشی سے کھل اٹھتا۔ ان کی مسکراہٹ میرے لیے سکون اور راحت کا پیغام تھی۔آج میںجب اپنے بچوں کو دیکھتا ہوں تو دل کٹ کر رہ جاتا ہے۔حال یہ ہے کہ اگر بچے ذرا سا بھی ہماری مرضی کے خلاف کچھ کر دیں تو ہمارا پارہ چڑھ جاتا ہے۔ جب تک انہیں ڈانٹ نہ دیں یا دو چار تھپڑ نہ رسید کریں، دل کو قرار نہیں آتا۔ ہم ذرا سی بات پر غصے میں آ جاتے ہیں، ڈانٹ دیتے ہیں، ہاتھ اٹھا لیتے ہیں، اور سمجھتے ہیں کہ یہی تربیت ہے۔ ہائے! ہم ابا کے صبر اور نرمی کا ایک ذرہ بھی اپنے اندر نہ لا سکے۔کاش! ہم بھی اپنے بچوں سے وہی نرمی اور برداشت برت سکیں۔
ابا کا یہ مزاج صرف اولاد تک ہی محدود نہ تھا بلکہ وہ ہر کسی سے مسکرا کر ملتے۔ رشتہ داروں اور دوستوں کے ساتھ ہمیشہ خوش مزاج، نرم دلی سے پیش آتے۔ کسی نے دل دکھایا تو کبھی شکوہ نہ کیا۔ کسی نے برائی کی تو کبھی جواب نہ دیا۔ ہم اگر کسی کی غیبت کرنے لگتے تو بات کا رخ بدل دیتے یا خاموشی سے مجلس چھوڑ جاتے۔ ایسی پاکیزہ عادتیں کہاں ملتی ہیں آج؟ابا! آپ کی یاد دل کو رُلا دیتی ہے۔ آپ کا سایہ ہم سے اٹھ گیا، لیکن آپ کی لمبی لمبی دعائیں اب بھی ہمیں سہارا دے رہی ہیں۔ آپ کا صبر، آپ کی شفقت اور آپ کی مسکراہٹ ہماری زندگی کا سب سے قیمتی ورثہ ہے۔ آپ کی جدائی سے جو خلا پیدا ہوا ہے وہ کبھی پر نہیں ہو سکتا ہے یہ ایک ایسا عظیم نقصان ہے جس کا کوئی نعم البدل ممکن نہیں۔ اے اللہ! ہمارے والد کے درجات بلند فرما، ان کی قبر کو نور سے بھر دے، اور ہمیں ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا کر۔ آمین۔