اہم خبریں

100 کلومیٹراندر گھس کرحملہ…آرمی، نیوی اور ایئر فورس، 54 سال بعد تینوں افواج نے مل کر پاکستان پر کیا ایکشن ؛ دہشت گردوں کے کل 9 ٹھکانوں کو بنایا نشانہ ؛ 100 سے زیادہ دہشت گردوں کی موت کا انداز

ہندوستان نے بدھ کی رات دیر گئے پاکستان اور پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر (پی او کے) میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر فضائی حملے شروع کیے۔ یہ کارروائی ’آپریشن سندور‘ کے تحت کی گئی اور خاص بات یہ تھی کہ اس میں بھارتی فوج، بحریہ اور فضائیہ، تینوں افواج نے مشترکہ طور پر حصہ لیا۔ 1971 کی جنگ کے بعد یہ پہلا موقع تھا جب بھارت کی تینوں فوجوں نے مل کر پاکستان کے خلاف کارروائی کی۔
بھارت نے پاکستان اور پی او کے میں 9 مقامات پر فضائی حملے کیے جن میں سے کچھ بین الاقوامی سرحد کے 100 کلومیٹر کے اندر واقع ہیں۔ خستور سے بہاولپور، جو کبھی جیش محمد کا گڑھ تھا، بہاولپور بین الاقوامی سرحد سے 100 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ جبکہ مریدکے 30 کلومیٹر اور گلپور 35 کلومیٹر دور واقع ہے۔
اس آپریشن میں دہشت گردوں کے کل 9 ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ اس میں بہاولپور میں جیش محمد کا ہیڈ کوارٹر اور لشکر طیبہ کا ہیڈ کوارٹر بھی شامل ہے۔ فوج کے مطابق بھارت میں دہشت گردانہ حملوں کی منصوبہ بندی ان جگہوں سے کی جا رہی تھی اور انہیں نشانہ بنایا گیا۔
اس آپریشن میں تینوں فوجوں نے اپنے اپنے جدید ترین ہتھیاروں کا استعمال کیا۔ کامیکاز ڈرون (لوئٹرنگ ایمونیشن) کو خاص طور پر استعمال کیا گیا، یہ وہ ہتھیار ہیں جو براہ راست دشمن کے ہدف کو نشانہ بناتے ہیں اور وہاں دھماکہ کرتے ہیں۔ فوج نے واضح کیا کہ پاکستانی فوج کے کسی اڈے پر حملہ نہیں کیا گیا، صرف دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا۔
ہندوستانی فوج کا یہ بھی کہنا تھا کہ آپریشن مکمل طور پر روکا، عین مطابق اور بلا اشتعال تھا۔ ہندوستان نے اپنے ہدف کے انتخاب میں بہت ہی انصاف پسندانہ انداز میں حملہ کیا اور صرف دہشت گرد ڈھانچوں پر حملہ کیا۔ یہ قدم پہلگام دہشت گردانہ حملے کے بعد اٹھایا گیا ہے جس میں 25 ہندوستانی اور ایک نیپالی شہری مارے گئے تھے۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم نریندر مودی نے خود رات بھر آپریشن کی نگرانی کی۔ قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول نے امریکی NSA اور سکریٹری آف اسٹیٹ مارکو روبیو کو آپریشن کی تکمیل کے بارے میں آگاہ کیا۔ اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ بھارت اس بار سیاسی اور سفارتی محاذ پر پوری طرح متحرک ہے۔

kawishejameel

chief editor

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: مواد محفوظ ہے !!