آزاد میدان سے اُٹھتی آواز، حکومت کے لیے کڑا امتحان؛ منوج جرانگے پاٹل کا اعلان، ’’آئینی طور پر جائز کوٹہ ملنے تک پیچھے نہیں ہٹیں گے‘‘

ممبئی: (کاوش جمیل رپورٹ) :مہاراشٹر میں مراٹھا سماج کی جانب سے ریزرویشن کے مطالبے نے ایک بار پھر ریاست کی سیاست اور عوامی زندگی کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ممبئی کے آزاد میدان میں سماجی رہنما منوج جرانگے پاٹل کی قیادت میں جاری انشن نے نہ صرف حکومت کے لیے چیلنج کھڑا کر دیا ہے بلکہ روزمرہ زندگی پر بھی اس کے اثرات نمایاں دکھائی دینے لگے ہیں۔
مراٹھا ریزرویشن کی تحریک کئی دہائیوں پر محیط ہے۔ اس کی بنیاد 1982 میں اس وقت پڑی جب انا صاحب پاٹل نے اس مسئلے پر جان دی اور ریاست میں ایک نئی بحث کا آغاز ہوا۔ اس کے بعد مختلف ادوار میں یہ سوال بار بار اٹھتا رہا۔ 2014 میں کانگریس اور این سی پی کی حکومت نے مراتھا سماج کے لیے 16 فیصد ریزرویشن کا اعلان کیا، لیکن عدالت نے اس پر روک لگا دی۔ 2016 کے کوپریڈ نے تحریک کو نئی شدت دی اور لاکھوں افراد نے ’’مراٹھا کرانتی مورچہ‘‘ کے نام سے پرامن ریلیاں نکالیں۔ 2018 میں اسمبلی نے ایک بار پھر 16 فیصد ریزرویشن کا بل پاس کیا جسے ہائی کورٹ نے جزوی طور پر برقرار رکھا، مگر 2021 میں سپریم کورٹ نے اسے غیر آئینی قرار دے دیا۔ اسی فیصلے نے تحریک کو ایک نئے موڑ پر پہنچا دیا۔
گزشتہ دو برسوں میں منوج جرانگے پاٹل اس تحریک کے مرکزی رہنما کے طور پر ابھرے ہیں۔ ان کا بنیادی مطالبہ یہ ہے کہ مراٹھا سماج کو ’’کُنبی‘‘ کیٹگری میں شامل کرتے ہوئے او بی سی کے تحت ریزرویشن دیا جائے۔ 2024 میں حکومت نے 10 فیصد ریزرویشن کا قانون منظور تو کر لیا، مگر یہ مسئلہ جوں کا توں باقی رہا۔
اب 29 اگست 2025 سے آزاد میدان میں شروع ہونے والے انشن نے حالات کو پھر سے کشیدہ بنا دیا ہے۔ جرانگے پاٹل نے بھوک ہڑتال کا آغاز کیا اور حکومت سے بات چیت ناکام ہونے کے بعد یکم ستمبر سے پانی پینا بھی ترک کررہے ہیں۔ ان کے اس قدم نے احتجاج کو انتہائی حساس رخ دے دیا ہے۔ ممبئی، تھانے، وسئی.ویرار اور میرا روڈ جیسے علاقوں میں ٹریفک بری طرح متاثر ہوا، ریلوی اسٹیشنوں پر بھی مظاہرین نے دھرنے دیے اور عام شہریوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ تاجروں نے کاروبار میں بھاری نقصان کی شکایت کی ہے جبکہ عام لوگ روزمرہ زندگی کے متاثر ہونے سے پریشان ہیں۔
ریاستی حکومت نے اس معاملے کو سلجھانے کے لیے ایک کابینہ سب کمیٹی تشکیل دی ہے جس میں سینئر وزرا اور قانونی ماہرین شامل ہیں۔ یہ کمیٹی تاریخی دستاویزات اور قانونی پہلوؤں کا جائزہ لے رہی ہے تاکہ مراٹھا سماج کو کس طرح ’’کُنبی‘‘ درجے میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے اور نائب وزرائے اعلیٰ دیویندر فڑنویس اور اجیت پوار نے عوام سے امن قائم رکھنے کی اپیل کی ہے، مگر ابھی تک کوئی حتمی فیصلہ سامنے نہیں آیا۔
ادھر سیاسی میدان میں بھی اس تحریک کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ اپوزیشن جماعتیں حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنا رہی ہیں جبکہ حکمران اتحاد یہ مؤقف دہرا رہا ہے کہ ریزرویشن صرف آئینی اور قانونی دائرے میں ہی دیا جا سکتا ہے۔ سپریا سولے جیسے اپوزیشن رہنماؤں کو احتجاجی مظاہرین کے غصے کا سامنا بھی کرنا پڑا، جس سے تحریک کی شدت اور عوامی بے چینی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
موجودہ صورتحال اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ حکومت جلد از جلد کوئی آئینی و قانونی راستہ تلاش کرے، ورنہ یہ تحریک ریاست کی سیاست ہی نہیں بلکہ پورے ملک کے سیاسی منظرنامے پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔ مراتھا آندولن اس وقت مہاراشٹر کے لیے سب سے بڑا سماجی و سیاسی چیلنج ہے اور آنے والے دنوں میں یہ فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو سکتا ہے۔