مضامین

حقوق العباد ؛ قرآن و سنت کی روشنی میں

dr sarosh ur rahman patur akolaڈاکٹر سروش الرحمٰن خان پاتوری
اکولہ

وَ اعۡبُدُوا اللّٰہَ وَ لَا تُشۡرِکُوۡا بِہٖ شَیۡئًا وَّ بِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا وَّ بِذِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡیَتٰمٰی وَ الۡمَسٰکِیۡنِ وَ الۡجَارِ ذِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡجَارِ الۡجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالۡجَنۡۢبِ وَ ابۡنِ السَّبِیۡلِ ۙ وَ مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ مَنۡ کَانَ مُخۡتَالًا فَخُوۡرَا
﴿ۙسورة النساء – ۳۶﴾

اور تم سب اللہ کی بندگی کرو ، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ ، ماں باپ کے ساتھ نیک برتاؤ کرو ، قرابت داروں اور یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ ، اور پڑوسی رشتہ دار سے ، اجنبی ہمسایہ سے ، پہلو کے ساتھی اور مسافر سے ، اور ان لونڈی غلاموں سے جو تمہارے قبضہ میں ہوں ، احسان کا معاملہ رکھو ، یقین جانو اللہ کسی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو اپنے پندار میں مغرور ہو اور اپنی بڑائی پر فخر کرے۔

حقوق کیا ہیں؟

حقوق سے مراد ان اصولوں اور قواعد کا مجموعہ ہے جو ایک معاشرہ یا خاندان کے افراد ایک دوسرے سے روابط کے دوران برتتے ہیں۔انہیں قوانین کو علمی اصطلاح میں حقوق کہتے ہیں جس کا مقصد لوگوں کی مکمل آزادی کے لیے حدود طے کرنا ہے۔ جن کی رعایت کرنے سے اجتماعی اور خاندانی زندگی محفوظ ہو سکتی ہے اور اسلامی و پاکیزہ معاشرہ تشکیل پا سکتا ہے۔
انسانی رشتوں کے حقوق کی ادائیگی اور اس کی پاسداری میں ہی زندگی کی اصل خوبصورتی ہے۔ رشتوں میں پائیداری کے لیے محبت ، خلوص اور خدمت بہت ضروری ہے۔ اللہ رب العزت نے بنی آدم کو بنیادی طور پر دو طرح کے حقوق دیے ہیں۔ پہلا حقوق اللہ اور دوسرا حقوق العباد۔ حقوق العباد کی حفاظت اس کی ادائیگی اور تکمیل کا راستہ قرآن و سنت کی اطاعت و پیروی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

حقوق العباد کی اہمیت

حضرت عائشہ رض کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا اعمال نامہ میں درج گناہ تین قسم کے ہوں گے ایک وہ گناہ ہے جسے اللہ ہرگز معاف نہیں کرے گا ، وہ شرک کا گناہ ہے ، اس نے اپنی کتاب (سورہ النساء:٤٨) میں کہا ہے ، یقینا اللہ اس جرم کو ہرگز معاف نہیں کرے گا کہ (اس کی ذات و صفات میں اس کے حقوق و اختیارات میں) کسی کو ساجھی اور حصہ دار بنایا جائے۔ دوسرا گناہ وہ جو نامۂ اعمال میں درج ہوگا ، بندوں کے حقوق سے متعلق ہے ، اسے اللہ نہیں چھوڑے گا یہاں تک کہ مظلومین ظالموں سے اپنا حق لے لیں۔ اور تیسرا درجِ رجسٹر گناہ وہ ہوگا جس کا تعلق بندے اور خدا سے ہے ، یہ اللہ کے حوالے ہے (وہ اپنے علم و حکمت کے تحت) چاہے گا تو عذاب دے گا ، چاہے (علم حکمت کے تحت) معاف کردے گا۔ (مشکٰوۃ)

حضرت عباس بن مرداس رض سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے عرفہ کی شام کو اپنی امت کے لیے دعا فرمائی ، تو اللہ تعالی کی طرف سے یہ جواب ملا کہ آپ کی دعا ہم نے قبول کی آپ کی امت کے گناہ ہم بخش دیں گے البتہ جن لوگوں نے دوسروں کے حقوق دبا لیے ہوں گے ان کے لیے چھٹکارا نہیں ہے۔ میں ظالم سے مظلوم کا حق وصول کر کے رہوں گا۔ (ابنِ ماجہ)
مذکورہ بالا احادیث کے الفاظ سے کسی کو مغفرت اور بخشش کے بارے میں کوئی مغالطہ نہ ہو ، اللہ کا قانونِ تعذیب اور قانونِ مغفرت دونوں پوری وضاحت کے ساتھ قرآن و حدیث میں بیان کر دیئے گئے ہیں۔

والدین کے حقوق

قرآن الکریم میں کئی مقامات پر والدین کے حقوق پر احکامات آئے ہیں۔حقوق اللہ کے بعد بندوں کے حقوق میں سرفہرست اطاعت و فرماں برداری والدین کی ہے۔ والدین وہ عظیم ہستیاں ہیں جن سے ہماری جنت اور جہنم وابستہ ہے۔ والدین کے ساتھ نرمی اور حُسنِ سلوک کی تاکید کی گئی ہے۔ ان کے مقام و مرتبہ ، عظمت اور فضیلت تمام حقوق پر مقدم ہے۔
حدیث پاک ہے ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا اے اللہ کے رسول ﷺ میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے۔ آپﷺ نے فرمایا تیری ماں اس نے کہا پھر کون؟ آپﷺ نے فرمایا تیری ماں اس نے کہا پھر کون؟ آپﷺ نے فرمایا تیری ماں اس نے کہا پھر کون؟ تو آپﷺ نے فرمایا تیرا باپ پھر درجہ بدرجہ جو تیرے قریب لوگ ہیں (بخاری و مسلم ، متفق علیہ)
حضرت ابوہریرہ رض سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا اس کی ناک خاک آلود ہو ، اس کی ناک خاک آلود ہو ، اس کی ناک خاک آلود ہو ، پوچھا گیا کس کی یا رسول اللہ ﷺ؟ سرکار دوعالمﷺ نے فرمایا جس نے بڑھاپے میں اپنے والدین کو یا دونوں میں سے کسی ایک کو پایا اور پھر جنت کا حقدار نہ بنا (مسلم)
ان احادیث سے والدین کی عظمت و اہمیت واضح ہو جاتی ہے۔ جہاں ماں کے قدموں کے نیچے جنت ہے وہیں باپ جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے۔ ان کی عظمت کا بیان کون کر سکتا ہے جن کی طرف محبت بھری نظروں سے دیکھنا بھی باعث اجر و ثواب ہے۔

زوجین کے حقوق

اللہ تعالی نے قرآن مجید میں میں حقوقِ زوجین کو بھی بیان کیا ہے سورہ النساء:١ ، سورہ الروم:٢١ اور سورہ البقرہ:١٨٧۔ اللہ تعالی نے پہلا رشتہ ہی میاں بیوی کا رشتہ بنایا ہے۔ اس رشتے کا آغاز ہی اعتماد اور یقین کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے۔ دونوں کے باہمی تعاون سے ہی گھر کو پرسکون بنایا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے شوہر کو قّوام اور بیوی کو محکوم کا درجہ دیا ہے۔ قرآن میں ان دونوں کو ایک دوسرے کا لباس کہا گیا ہے لباس کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ایک دوسرے کی اچھائیوں کو سمجھنا اور کمزوریوں کی پردہ پوشی کرنا۔ زوجین کے مرتبے کے سلسلے میں چند احادیث ملاحظہ ہو۔
آپﷺ نے فرمایا اگر میں کسی کو دوسرے کے لئے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے۔ (ترمذی شریف)
آپﷺ نے فرمایا تم میں کامل ایمان والے وہ لوگ ہیں جن کے اخلاق اچھے ہیں اور تم میں بہترین لوگ وہ ہیں جو اپنی بیویوں کے ساتھ اچھا سلوک کرتے ہیں۔ (ترمذی شریف)
کسی نے رسول اللہﷺ سے پوچھا کون سی عورت سب سے اچھی ہے آپ نے فرمایا وہ کہ جب خاوند اس کی طرف دیکھے تو خوش ہو جائے وہ حکم دے تو اس کی تعمیل کرے اور اپنی جان و مال کے معاملے میں ایسی کوئی بات نہ کرے جو شوہر کو ناپسند ہو (نسائی ، بیہقی)
حضرت ام سلمہ رض روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا جو عورت اس حال میں فوت ہوئی کہ اس کا شوہر اس سے راضی اور خوش تھا تو وہ جنت میں جس دروازے سے چاہے داخل ہو سکتی ہے۔ (ترمذی شریف)
مذکورہ احادیث سے شوہر و بیوی کی اہمیت ثابت ہے۔ جہاں اللہ نے عورت کو ماں ہونے کی حیثیت سے فضیلت عطا کی ہے تو دوسری جگہ مرد کو شوہر ہونے کی وجہ سے عورت سے ایک درجہ بلند رکھا ہے اس طرح دونوں کو ان کا حق مل رہا ہے۔

اولاد کے حقوق

والدین کا فرض ہے کہ اپنے بچوں کو اپنی استطاعت کے مطابق کھانا کھلائے ، پہنائے اور ان کی ضروریات کا خیال رکھیں۔ بیٹا اور بیٹی کا فرق بالکل بھی نہ کریں۔ رزق کی تنگی کے ڈر سے انہیں قتل نہ کرے اور ان کے ساتھ بدسلوکی نہ کریں۔ اصل میں والدین صرف ایک ذریعہ ہے حقیقتی کفالت کرنے والا تو اللہ رب العزت ہے۔ جو صاف صاف کہتا ہے کہ رزق کا دینے والا میں ہوں۔
حدیثوں میں آتا ہے کہ
عبد اللہ بن عباس رض نبیِ کریمﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا تم لوگ اپنی اولاد کے ساتھ رحم و کرم کا برتاؤ کرو اور ان کو اچھی تعلیم و تربیت دو۔ (ابن ماجہ)
حضرت ثوبان رض روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا اجروثواب کے اعتبار سے وہ دینار بہتر ہے جو تم اپنے اہل و عیال پر خرچ کرتے ہو۔ (مسلم)
حضرت انس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ اللہ کے رسول اللہﷺ نے فرمایا جس نے دو بیٹیوں کی پرورش کی یہاں تک کہ وہ جوان ہو گئی تو قیامت کے دن وہ آئے گا۔ ہم اور وہ اس طرح ہوں گے آپ نے اپنی دونوں انگلیوں کو ملایا۔ (مسلم)

پڑوسیوں کے حقوق

اللہ کے نبیﷺ نے ہمیشہ اپنے گھر والوں اور صحابہ اکرام رض کو پڑوسیوں کے حقوق کے سلسلے میں عمدہ نصیحتیں کی ہیں۔ ان کے ساتھ خوش خلقی سے پیش آنے کی ترغیب دی ہے۔ یہی بات ہم پر بھی لازم آتی ہے۔ اس لئے کہ چھوٹی بڑی پریشانی میں پہلے پڑوسی شامل ہوتے ہیں بعد میں رشتہ دار آتے ہیں۔ دو بھائیوں سے پہلے دو پڑوسیوں کا حساب لیا جائے گا۔ ایک مسلمان کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ خود پیٹ بھر کے کھائے اور اس کا پڑوسی بھوکا سو جائے۔ حدیث میں آتا ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رض اور حضرت عمر فاروق رض سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا جبرائیل علیہ السلام ہمیشہ مجھے ہم سائے کے بارے میں وصیت کرتے رہے یہاں تک کہ مجھے گمان ہونے لگا کہ وہ عنقریب اسے وارث بنا دیں گے۔ (متفق علیہ)

رشتہ داروں کے حقوق

حقوق العباد کی اہم کڑی رشتہ داروں سے حسن خلق کا مظاہرہ کرنا ہے۔ ان کے ساتھ ادب ، تمیز ، نرمی اور صلہ رحمی کا معاملہ کرنا ہے۔ تا کہ رشتوں میں محبت ، مضبوطی اور پائیداری رہے۔ ان کی بدظنی پر صبر کرنے اور برائی کا جواب اچھائی سے دینے پر دوہرا اجر ہے۔رشتوں کی اہمیت کا اندازہ ان حدیثوں سے ظاہر ہوتا ہے۔
حضرت ابن عمر رض راوی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا وہ سچا صلہ رحمی کرنے والا نہیں ہے جو بدلے میں صلہ رحمی کرے ، اصل صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے کہ رشتہ دار اس سے کٹے تو وہ ان سے جڑے۔ (بخاری)
ایک اور حدیث میں اس رشتے کو بڑے جامع انداز میں بیان کیا گیا ہے۔
ایک آدمی نے رسول اللہﷺ سے کہا کہ اے اللہ کے رسولﷺ میرے کچھ رشتہ دار ہیں جن کے حقوق میں ادا کرتا ہوں اور وہ میرے حقوق ادا نہیں کرتے میں ان کے ساتھ حسن سلوک کرتا ہوں اور وہ میرے ساتھ بدسلوکی کرتے ہیں میں ان کے ساتھ حلم و بردباری سے پیش آتا ہوں اور وہ میرے ساتھ جہالت برتتے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا اگر تو ایسا ہی ہے جیسا کہ تو کہتا ہے تو گویا تو ان کے چہروں پر سیاہی پھیر رہا ہے اور اللہ ان کے مقابلے میں ہمیشہ تیرا مددگار رہے گا جب تک تو اِس حالت پر قائم رہے گا۔ (مسلم)

خادم کے حقوق

پیارے نبی ﷺ نے خادموں اور غلاموں کے ساتھ شفقت و نرمی اور حسن سلوک اختیار کرنے کی تلقین فرمائی ہے۔یہاں تک کہ آپ نے موت سے قبل جو نصیحت کی اس میں غلام کا ذکر بھی فرمایا۔حدیث پاک کا مفہوم اس طرح ہے کہ
غلاموں کو وہی کھلاؤ جو خود کھاتے ہو ، وہی پہناؤ جو خود پہنتے ہو۔ ان پر اتنا ہی بوجھ ڈالو جو اس کی طاقت و استطاعت سے باہر نہ ہو۔اور اگر اس پر ایسے کام کا بوجھ ڈالا جائے جو اس کی طاقت و قوت سے باہر ہو تو اس کام میں اس کی مدد کرو۔ (بخاری ، مسلم)

بیوہ و یتیم کے حقوق

اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جس نے عورتوں کے حقوق متعین کیے ان کی حفاظت فرمائی اور معاشرے میں انہیں ان کا مقام دلایا۔ اسی طرح یتیم بچوں کی کفالت کا بھی بہترین انتظام کیا۔ یتیم کے ولی کو چاہیے کہ وہ اس کے ساتھ نرمی اور محبت سے پیش آئے اور اس کے جان ، مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کرے۔بقول رسول اللہﷺ کہ
سہل بن سعد رض راوی ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا نیز دوسرے محتاجوں کا سرپرست جنت میں ہم دونوں اس طرح ہوں گے۔ یہ کہہ کر آپﷺ نے بیچ کی انگلی اور شہادت کی انگلی سے اشارہ کیا اور دونوں انگلیوں کے درمیان تھوڑا سا فاصلہ رکھا۔ (بخاری شریف)

مسکین ، محتاج اور فقیر کے حقوق

یہ معاشرے کا وہ طبقہ ہوتا ہے جنہیں عموماً غریب کہا جاتا ہے۔ جن کے پاس زندگی گزارنے کے وسائل نہیں ہوتے ہیں۔ جن کے پاس پیٹ بھرکے کھانا اور سر پر سایہ نہیں ہوتا۔ان میں سے کچھ تو ہاتھ پھیلانا شروع کر دیتے ہیں اور کچھ سفید پوشی کی زندگی گزارتے ہیں جنہیں پہچاننا بہت مشکل ہوتا ہے۔ ان کے حقوق ادا کرنا بھی باعث ِ اجر و ثواب ہے۔ اس سلسلے میں بھی ایک حدیث ملاحظہ کریں۔
حضرت ابو ہریرہ رض نے فرمایا کہ فرمان مصطفٰے ﷺ ہے کہ ، اللہ تعالی قیامت کے دن کہے گا اے آدم کے بیٹے میں نے تجھ سے کھانا مانگا تھا لیکن تو نے مجھے نہیں کھلایا وہ کہے گا اے میرے رب! میں تجھے کیوں کر کھانا کھلاتا تو ، تو سارے عالم کی پرورش کرنے والا ہے؟ اللہ کہے گا کہ تجھے خبر نہیں کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا مانگا تھا؟ لیکن تو نے کھانا نہیں کھلایا۔کیا تجھے خبر نہیں؟ اگر تو اسے کھلاتا تو اس کھانے کو میرے یہاں پاتا۔ اے آدم کے بیٹے میں نے تجھ سے پانی مانگا تھا لیکن تو نے نہیں پلایا۔ وہ کہے گا اے میرے رب! میں تجھے کیسے پلاتا؟ جبکہ تو تو رب العالمین ہے۔اللہ کہے گا میرے فلاں بندے نے پانی مانگا تھا اگر تو پلاتا تو اس پانی کو میرے یہاں پاتا۔ (مسلم شریف)

مسافر کے حقوق

جو شخص کسی قافلہ یا سفر میں ہو اسے چاہیے کہ اپنے ساتھ جو مسافر ہیں ان کا خیال رکھے۔ضرورت کی چیز مانگنے پر منع نا کرے اپنے اخلاقانہ اثرات اس پر چھوڑے کہ مسلمان ہر جگہ اللہ کا بندہ ہوتا ہے۔ جگہ بدلنے سے اس کی حیثیت نہیں بدلتی۔ حدیث سے ثابت ہے کہ
قوم کا سردار قوم کا خادم ہوتا ہے۔ تو جو شخص لوگوں کی خدمت کرنے میں سبقت لے جائے تو لوگ اس سے کسی عمل کی بدولت نہیں بڑھ سکتے بجز شہادت کے۔ (مشکٰوۃ)

مسلمان کے مسلمان پر حقوق

ایک مسلمان دوسرے مسلمان بھائی کے لئے ستون کی حیثیت رکھتا ہے۔ جب ایک کسی پریشانی و مصیبت میں مبتلا ہوتا ہے تو اسے حوصلہ دیتا ہے۔ صبر کی تلقین کرتا ہے۔ اس کی خوشی اور اس کے غم میں برابر کا شریک ہوتا ہے۔ایک مومن کی یہ خوبی بتائی گئی ہے کہ وہ طعنہ دینے والا نہیں ہو سکتا ، حفاظت کرنے والا ہوتا ہے۔ وہ ہلاکت کو دفع کرنے والا ہوتا ہے۔حدیث پاک کے مطابق
حضرت ابوہریرہ رض سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا مسلمان ، مسلمان کا بھائی ہے۔ نہ اس پر ظلم کرے نہ اس کو ذلیل کرے ، نہ اس کی تحقیر کرے۔ تقوی یہاں ہے ، آپﷺ نے سینے کی طرف اشارہ کیا۔ آدمی کے برا ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے ہر مسلمان کا دوسرے مسلمان پر خون ، مال اور آبرو حرام ہے۔ (مسلم)

مہمان اور مریض کے حقوق

مہمان نوازی مسلمانوں کی قدیم روایت کا حصہ ہے یہ آپسی تعلقات کو مضبوط کرتا ہے۔ مہمان کو چاہئے کہ وہ تین دنوں تک ہی مہمان نوازی کرآئے ورنہ میزبان کو تکلیف ہو سکتی ہے۔کوئی رشتہ دار یا مسلمان بیمار ہو تو اس کی عیادت بھی ضروری ہے۔ بیمار کی عیادت کرنے والے کے لئے سمندر کی مچھلیاں اور ستر ہزار فرشتے دعا کرتے ہیں۔ حدیث میں آیا ہے کہ آپﷺ نے فرمایا مسلمان جب اپنے مسلمان بھائی کی عیادت کرتا ہے تو اس کے وہاں سے واپس آنے تک جنت کے باغ میں سیر کرتا ہے۔ (مسلم)
حقوق العباد کی ادائیگی مرد و زن دونوں پر عائد ہوتی ہے۔ جو انسان کسی ظلم کا بارِ گناہ اٹھائے ہوئے آئےگا خواہ اس نے حق تلفی اپنے خدا کے حقوق پر کیا ہو ، خلق خدا پر یا پھر اپنے نفس پر اسے کامیابی نہیں ملے گی۔ عدل و انصاف اور محبت و اخوت کا ساتھ دینے والوں کو ہی کامیابی حاصل ہو گی۔ بہتر اور صالح معاشرے کا وجود اسی احترام کا متقاضی ہے۔

kawishejameel

Jameel Ahmed Shaikh Chief Editor: Kawish e Jameel (Maharashtra Government Accredited Journalist) Mob: 9028282166,9028982166

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
error: Content is protected !!