محمد ادیس جمعدار کے سبکدوش ہونے پر معروف شاعر انس نبیل کا تحریر کردہ خاکہ

انس نبیل
ادریس سر مسکراتا ہوا چہرہ، چہرہ پہ ریشِ مبارک، جبیں پر تمغہ عبادت، سر پر ٹوپی، میانہ قد اور میانہ جسامت ۔جن کی شخصیت باوقار، شیریں جن کی گفتار اور جن کے قدم تیز رفتار ۔تیز قدموں سے انجمن میدان کا طواف کرتے ہوئے اکثر دکھائی دیتے ہیں ۔چلتے وقت صرف اپنے پیروں ہی کو مصروف نہیں رکھتے بلکہ اپنے ہاتھوں کے ذریعے دو متضاد شخصیات میں اتحاد پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں یعنی یوں انگلیوں کو حرکت دیتے ہیں جیسے کوئی زاہد تسبیح کررہا ہو یا کوئی موسیقار اپنی انگلیوں سے موسیقی کی نئ دھن ترتیب دے رہا ہو۔بحر کیف ادریس سر سے میرے تعلقات کئ طرح کے ہیں وہ میرے استاد بھی ہیں، ساتھی بھی ہیں، نگراں بھی اور چچا بھی۔چچا اس حیثیت سے کہ ان کا بھتیجا اویس میرا سب سے قریبی دوست ہے ۔
ادریس سر سے مجھے سب سے پہلے بہ طور شاگرد سابقہ پیش آیا اور سر کے سایہء شفقت میں کئی تعلیمی سال گزارنے کے بعد میں یہ گواہی دے سکتا ہوں کہ سر نے ہمیشہ اپنے طلباء کے ساتھ اولاد کی طرح مشفقانہ رویہ اختیار کیا اور اپنے تدریسی عمل کو پوری ایمانداری سے انجام دیا شاید اسی لئے سر کے فرزند فرمانبردار بھی ہیں اور تعلیمی اعتبار سے کامیاب بھی کیونکہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جو دوسروں کی اولاد کو کامیابی کے راستے پر چلاتا ہے اس کی اولاد بھی کامیابی سے ہمکنار ہوتی ہے لیکن یہ کوئی مسلمہ اصول نہیں ہے ۔ اس سے متضاد معاملات بھی سماج میں نظر آتے ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کی کوئی مصلحت کارفرما ہوتی ہے ۔بحر کیف میں یہ عرض کررہا تھا کہ سر سے میں نے ہندی زبان پڑھی ہے۔ماہرینِ لسانیات کا کہنا ہے کہ کسی نئ زبان کو سیکھنے کے لئے سیکھی ہوئی زبانوں کی زیادہ سے زیادہ مدد لینی چاہئے کیونکہ مختلف زبانوں کے قواعد میں بہت گہرے روابط اور ذخیرہء الفاظ میں گہری مناسبتیں پائی جاتی ہیں ۔ادریس سر اس بات کا خصوصی لحاظ رکھتے ہوئے ہندی زبان کے ہر شبد یعنی کہ ورڈ یعنی کہ لفظ کو مختلف زبانوں کے ہم معنی الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے سمجھایا کرتے ۔سر کو دورانِ تدریس بہت کم غصہ آیا کرتا لیکن جب آتا تو قابلِ دید ہوتا۔جب کسی کی شرارت پر سزا دینی ہوتی تو بڑے اہتمام سے اپنی آستینوں کے بٹن کھول کر پہلے آستین کے سانپوں کو گرادیتے پھر اپنی گھڑی اتارتے ۔گھڑی کا اترنا اس بات کی علامت ہوتی کہ سامنے کھڑے ہوئے طالبِ علم کا برا وقت آچکا ہے ۔پھر آپ بڑے پیار سے طالبِ علم کو کمر سے جھکاتے ہوئے 90 درجہ کا زاویہء قائمہ بناتے اور اپنے ہاتھ سے اس زاویہ کے ایک خط کو اس طرح سے کھنچتے کہ بسا اوقات وہ دوسرے خط سے جا ملتا۔ ریاضی میں یہ مہارت شاید انھیں عمران سر کی صحبت سے حاصل ہوئی ۔خاص طور پر ادریس سر اپنے اقرباء طلباء کو زاویہ بننے کا یہ سنہرا موقع بارہا دیا کرتے۔مجھے تو ادریس سر نے اس طرح زاویہ ء قائمہ بننے کا موقع کبھی نہیں دیا لیکن ہاں زاویہء قائمہ پڑھانے والے عمیر احمد سر اور ماموں جان عمیر محمد سر کے ذریعے بارہا یہ موقع ملتا رہا کہ ادریس سر کی طرح یہ حضرات بھی اپنے اقرباء طلباء پر نظرِ عنایت کے ساتھ ساتھ دستِ عنایت رکھنے کے قائل ہیں ۔
ایک اچھا استاد صرف اپنا مضمون ہی نہیں پڑھاتا بلکہ طلباء کی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کی کوشش بھی کرتا ہے ۔سر بھی ہمیشہ یہ کوشش کیا کرتے اور مجھے یہ بتاتے ہوئے خوشی ہوتی ہے کہ میرے شعری سفر میں بھی ادریس سر کا بڑا تعاون رہا۔فضیل سر بھی طلباء کی صلاحیتوں کو نکھارنے میں ہمیشہ کوشاں نظر آتے ہیں لیکن میرے دورِ طالبِ علمی میں انھوں نے مجھے بہت نظر انداز کیا شاید انھیں یہ خدشہ تھا کہ میں ان کی میراث یعنی مائک پر اپنا حقِ ملکیت نہ جتانے لگوں ۔ہاں طالبِ علمی کے زمانے کے بعد فضیل سر نے میری شعری صلاحیتوں کا اعتراف بھی کیا اور میرا تعاون بھی کیونکہ اب وہ اس بات سے واقف ہوچکے ہیں کہ میرے اندر ” میری آواز سنو ” والا جرثومہ نہیں پایا جاتا ۔ادریس سر نے میری شاعری کے بالکل ابتدائی دور میں مجھے ایک انتہائی اہم موقع فراہم کیا ۔ سر اور ان کے احباب نے بیاد ضیاء و بدر ایک مشاعرہ کا انعقاد کیا اور سر اور ان کے احباب ایاز صاحب، سلام صاحب وغیرہ کے اصرار پر ہی پہلی مرتبہ 2003 میں نے مشاعرہ میں شرکت کی۔اس کے بعد بھی سر نے کئ مرتبہ مشاعروں کا انعقاد کیا اور میں ہر مشاعرہ میں شامل رہا اور میری زندگی میں یہ مشاعروں کا سلسلہ تا حال جاری ہے۔یہ چیز جہاں سر کی طلباء کی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کی گواہی دیتی ہے وہیں سر کی ادب دوستی کی بھی گواہ ہے ۔کبھی کبھی تو سر نے اپنے گھر کی چھت پر بھی شعری نشستوں کا اہتمام کیا جن میں میری طرح سر کے کچھ اور شاگرد بھی ہوا کرتے ۔کچھ تو ایسے بھی تھے کہ اپنے شعر کا ایک مصرعہ ترنم میں اور دوسرا تحت میں پڑھا کرتے ۔خیر شاعری کے علاوہ بھی اس خاکسار کو دورِ طالبِ علمی میں کچھ اور صلاحیتوں کے اظہار کا موقع ملا جس میں سے ایک اداکاری بھی ہے اور اس میں بھی مجھے ادریس کا تعاون حاصل ہوا۔ایک سرکاری مہم کے دوران فضیل سر نے ایک بہترین ڈرامہ ” کون بنے گا کچرا پتی ” لکھا جس میں ادریس سر نے مجھے زبردستی ڈاکٹر جے کال کا کردار نبھانے کے لئے پیش کردیا اور فضیل سر کے لکھے ہوئے اس ڈرامے نے کھامگاؤں شہر میں اول انعام حاصل کیا ۔ دورِ طالبِ علمی کے بعد مجھے اپنی مادرِ علمی انجمن میں تدریس کی سعادت حاصل ہوئی اور یہاں ادریس کے ساتھی کے طور پر بھی کام کرنے کا موقع ملا اور سر کی نگرانی میں بھی۔کہتے ہیں کہ انسان کی پہچان عہدہ ملنے کے بعد ہوتی ہے ادریس سر کو سیاسی عہدے بھی ملے اور تدریسی میدان کے عہدے بھی لیکن کبھی انھوں نے اپنے عہدوں کا غلط استعمال نہیں کیا ۔اب یہاں ضمنی طور پر سر کی سیاسی زندگی کا ذکر ہوگیا تو ایک وضاحت کردوں کہ سر کے بعض سیاسی نظریات سے میں اختلاف رکھتا ہوں لیکن اس کے باوجود یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ ایک سیاسی و تعلیمی عہدیدار کی حیثیت سے میں نے سر کو بہت زیادہ معاملہ فہم ، در گزر کرنے والا اور دوسروں کے مسائل کو حل کرنے والا پایا۔
اس ضمن میں ایک بات یاد آتی ہے کہ اسکول کی مختلف تقاریب کے لئے تنخواہ پانے والے اساتذہ کی طرح نان گرانٹ اساتذہ سے بھی مالی تعاون لیا جاتا تھا جس کے خلاف کچھ نان گرانٹ اساتذہ نے لب کشائی کی جراءت کی جس کی سب سے پہلے ادریس سرنے تائید کی۔اس کے علاوہ بھی ادریس سر نے استاذہ کے مسائل کو حل کرنے کی بارہا کوششیں کیں ۔ایک اہم بات یہ ہے کہ سر نے اپنے ان ساتھیوں کے ساتھ بھی ہمیشہ عزت و احترام سے بات کی جنھیں میری طرح سر کی شاگردی نصیب ہوئی تھی۔لگے ہاتھوں آج اپنی ایک غفلت کا بھی اعتراف کئے دیتا ہوں کہ اکثر امتحانات کے جانچ شدہ پرچے جمع کروانے کے معاملے میں میں نے سر کی نرم دلی کا غلط فائدہ اٹھایا۔اب اس تحریر کے بعد یقینی طور پر یہ موقع مجھے حاصل نہیں ہوگا لیکن میں تو غالب کا مرید ہوں جسے اپنی غلطیوں کا اظہار کرنے میں لطف آتا ہے. بحر کیف میں نے اس انجمن میں اب تک اپنے لڑکپن کو جوانی میں اور سر کی جوانی کو پیری میں ڈھلتے ہوئے دیکھا ہے اور اس دوران سر کو سخت حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔سر کو طویل عرصے سے ایک مرض لاحق ہے ۔ایک ایسا مرض جو انسان کے مسکراتے ہوئے چہرے کی ضیاء کو کم کریتا ہے اور کم سے کم بتیس اعضاء پر اثر انداز ہوتا ہے شاید اسی لئے اسے ذیابطیس کہتے ہیں لیکن سر نے اس مرض کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے اور کررہے ہیں اور انجمن میدان کے بتیس منٹ تک بتیس چکر لگا کر ذیابطیس کو چکر میں ڈالے ہوئے ہیں ۔سر کو کورونا "جہاد”میں فضیل سر کی طرح اعلانیہ طور پر شرکت کرنے اور کامراں ہونے کی سعادت حاصل ہوئی ویسے خفیہ طور پر میرے ادارہ کے بہت سارے لوگوں نے اس جہاد میں شرکت کی ۔اللہ تعالیٰ ان بے لوث، بے ریا مجاہدین کی کاوشوں کو قبول فرمائے۔آمین
اس وقت رات کے 2 بج رہے ہیں اور میں یہ بات تحریر کررہا ہوں کہ آج ادریس سر اپنے تدریسی فرائض سے سبکدوش ہورہے ہیں لیکن امید ہے کہ سر انجمن میدان میں گھومتے ہوئے نظر آتے رہیں گے اور ویسے بھی سر کا ایک جانشین اس ادارہ میں ہے جو سر کے ہر انداز کی یاد دلاتا ہے اور دلاتا رہے گا۔سر اب بھی صحت کے معاملے میں کچھ مسائل کا سامنا کررہے ہیں لیکن وہ ہمت ہارنے والوں میں سے نہیں ہیں ۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ سر کو مکمل طور پر شفا عطا فرمائے اور ان کی جائز تمناؤں کو پورا فرمائے۔آمین
سر کی شخصیت کے خدو خال کو اجاگر کرتے ہوئے راز بالاپوری کے اس شعر پر اپنے قلم کو روکتا ہوں کہ
ادب میں حلقہء احباب میں سیاست میں
جہاں جہاں بھی رہے ہم کھلی کتاب رہے