جب تک مسلم قوم سے سیاست کے دلال ختم نہیں ہونگے،تب تک اس قوم سے سچّا سیاسی قائد پیدا ہونا مشکل ہے
ڈاکٹررضی اللہ خان
کھام گاؤں(مہاراشٹر)
پرشانت کشورایک ہندوستانی سیاسی حکمت عملی اور حکمت عملی ساز ہے ۔ انہوں نے بی جے پی ، جے ڈی (یو) ، آئی این سی ، اے اے پی ، وائی ایس آر سی پی ، ڈی ایم کے اور ٹی ایم سی کے لیے کام کیا ۔ ان کی پہلی بڑی سیاسی مہم 2011 میں نریندر مودی کی مدد کے لیے تھی ۔اور نریندر مودی پہلی بار وزیر اعظم بنے تھے۔ ابھی ابھی انکا ایک ویڈیو وائرل ہوا جس میں وہ ہندوستانی مسلمانوں اور انکی لیڈرشپ پر بات کر رہے تھے کہ آج بھی ہندوستانی مسلمانوں کے پاس لیڈرشپ کا فقدان ہے۔ پرشانت کشور نے بہت صحیح بات کہی! کیا وجہ ہے کہ آزادی کے بعد سے آج تک کوئی مسلم قیات پیدا نہیں ہوئی يا قائد نہ بن پایا ۔ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی %18 کے قریب ہے اور دنیا کے تناسب سے ہندوستان، انڈونیشیا کے بعد دوسرے نمبر پر ہے جہاں کثیر تعداد میں مسلمانوں کی آبادی موجود ہے۔ جو علاقائی لیڈر اُبھر کر آئے وہ طفیلی قسم کے لیڈرز تھے ۔ جو نام نہاد سیکولر پارٹیز سے جیت حاصل کرکے آئے تھے ۔اور بیتے کچھ سالوں میں نفرتی پولیٹکس کا شکار ہوئیں اور انہیں مقدمات میں پھنساکا کر جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا گیا یا ان کو صفحے ہستی سے مٹا دیا گیا ۔اور انکی نام نہاد سیکولر پارٹیز خاموش تماشائی بنی رہی۔محمد شہاب الدین ،عتیق احمد،اعظم خان وغیرہ اسکی مثال ہے۔ مطلب مسلمانوں کے لیے سیکولراور فرقاپرست دونوں کا رخ ایک جیسا ہے۔ سکے کے دونوں رخ ایک جیسے ہیں۔ اب ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے ان مسلم لیڈرز نے قوم کے لیے کیا, کیا ؟ یا خودپرستی کی سیاست کی ۔ واللہ اعلم
قوم کا حال آج یہ ہے کی ہر فرد سیاسی بنا ہوا ہے اور خود کو سیاستداں سمجھ رہا ہے،لیکن سیاسی سمجھ بوجھ میں صفر ہے۔تعلیمِ یافتہ اپنی نوکری ، تنخوا ه اور اپنے پریوار میں خوش ہے ۔اور یہ کہہ کر سیاست سے دور ہے کہ سیاست بڑی گندی چیز ہے اس سے دور رہنا ہی بہتر ہے۔ جو تعلیمِ یافتہ طبقہ يا غیر تعلیم یافتہ طبقہ سیاست سے رغبت رکھتا ہے وہ اپنے ذاتی مفاد کی خاطر قوم کی دشمن سیاسی جماعت یا نام نہاد سیکولر جماعت کو سپورٹ کرتا ہے اور سیدھے سادھے روز کمانے روز کھانے والے مسلمانوں کا ووٹ بینک اُدھر ٹرن کرتا ہے ۔ تعجب کی بات تو تب دکھائی دی تھی جب سپریم کورٹ کا فیصلہ بابری مسجد کے خلاف آیا تھا اور قوم کے دلال اس فیصلے پر مٹھائیاں تقسیم کر رہے تھے کہ ملک میں کوئی فساد نہیں ہوا ،یہ آستھا کا فیصلہ آیا۔
دیا بجھاکے اندھیروں میں بیٹھ جاتے ہیں
ضمیرِ بیچ کر غیروں میں بیٹھ جاتے ہیں
جنہیں بناتے ہیں ہم لوگ رہنما اپنا وہ حکمرانوں کے پیروں میں بیٹھ جاتے ہیں۔ اِک دیوانہ ہے جو سنسد سے سڑک تک قوم کے حقوق کی بات کرتا ہے، سیاست میں قوم کی حصہ داری کی بات کرتاہے۔ لیکن وہ قوم کو ایجنٹ نظر آتا ہے۔ آزادی کے بعد سے آج تک ہندوستانی سیاست اور یہاں موجود سیاسی پارٹیز سب کی آج تک کی کار کردگی، سب کے سامنے ہے کہ کون مسلمانوں کا ہمدرد ہے اور کون دشمن؟؟۔
جب تک مسلم قوم سے سیاست کے دلال ختم نہیں ہوتے ، قوم کی خاطر قربانیاں دینے والے پیدا نہیں ہوتے، اور قوم کا ہر فرد چاہے وہ تعلیم یافتہ ہو یا انپڑھ ہو ، امیر ہو یا غریب ہو ،قوم کے لیے آواز اٹھانے والے قائد پر آنکھ موند کر بھروسہ نہیں کرتا تب تک اس قوم سے سچّا سیاسی قائد پیدا نہیں ہوتا۔
سبق سیکھا ہے میں نے ماضی کی ہواؤں سے
میں مطمئن ہوں کہ آنے والا وقت ہمارا ہوگا
انشاء اللہ