مہاراشٹر

سسکتی اِنسانیت کو نظامِ خلافت ہی عدل و انصاف دلاسکتا ہے۔ ڈاکٹر ابرار عارف ؛ شہادتِ اِمام حسین رض اور احیاء خلافت کے عنوان سے وحدتِ اسلامی اکولہ اکائی نے کیا اہم خطابِ عام کا انعقاد

اکولہ: (ڈاکٹر ذاکر نعمانی) :یوم عاشورہ کے موقع سے ۸ محرم الحرام ۱۴۴۶ ھ کو مسجد مومن پورہ میں بعد نمازِ عشاء وحدت اسلامی اکولہ یونٹ کی جانب سے ایک عظیم الشان خطاب عام بعنوان شہادتِ امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ اور احیاء خلافت منعقد کیا گیا۔ جس کا اغاز حافظ و قاری افروز امانی صاحب کی تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ تلاوت کے بعد برادر خالد نے حسینیت پر ترانہ پیش کیا۔ خطاب عام کے فاضل مقرر ڈاکٹر ابرار عارف صاحب اورنگ آباد نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ اسلامی کیلنڈر کا اغاز حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے دور خلافت سے رائج ہوا۔ محرم کی اہمیت پر آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے قران میں محرم کو بڑا محترم اور حرمت والا مہینہ کہا ہے اور احادیث میں محرم کے روزوں کی بہت اہمیت بیان کی گئی ہے۔ ساتھ ہی آپ نے خلافت، خلیفہ کا مفہوم بیان کیا اور فرمایا کہ اپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین تین دن کے بعد ہوئی اس کی وجہ یہ رہی کہ پہلے خلیفہ کا انتخاب کیا گیا اس کے بعد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین کی گئی اِس سے خلافت اورخلیفہ کی اہمیت کااندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ آپ نے کہا کہ خلیفہ اللہ کا نائب ہوتا ہے اور اللہ کی حاکمیت کو قائم کرتا ہے۔ خلیفہ اپنی مرضی سے قانون نہیں چلا سکتا بلکہ اللہ کی مرضی سے اسلامی حکومت چلاتا ہے اور اللہ کے قوانین کو نافذ کرنے کا پابند ہوتا ہے۔ جیسے خلفائے راشدین نے خلافت علی منہاج النبوہ کے تحت خلافت قائم کی اور چلائی۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے اپنے بیٹے کو خلیفہ نامزد کرنے پر امام حسین رض نے دیکھا کہ اسلامی اصول ٹوٹ رہا ہے اور خلافت ملوكيت میں تبدیل ہو رہی ہے۔باپ کے بعد بیٹے کو خلافت سونپی جا رہی ہے جوکہ اُس کا اہل نہیں ہے اور یہ عمل اسلامی اصولوں کے خلاف ہے۔ اسی لیے حضرت امام حسین رض یزید کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔اسی لیے واقعہ کربلا پیش آیا۔ فاضل مقرر نے کہاکہ خلافت میں خلیفہ ہر چیز کا ذمہ دار ہوتا ہے اور وہ جواب دہ بھی ہوتا ہے یہی باتیں ہمیں خلفائے راشدین کی خلافت میں نظر آتی ہے۔ خلافت میں انسانوں کی غلامی نہیں ہوتی بلکہ انسانوں کو اللہ کی غلامی میں لایا جاتا ہے اور امت واحدہ کا پیغام دیا جاتا ہے۔ اسلامی نظام عدل و انصاف کا علمبردار ہوتا ہے۔ اسلام میں شورائی نظام ہوتا ہے اور خلیفہ ان کے مشورے کو قبول کرتے ہوئے فیصلہ کرتا ہے۔ خلافت کی خصوصیات کے متعلق فرمایا کہ خلافت میں خدمت خلق، علاج اور علم پر کسی قسم کا کوئی کاروبار نہیں کیا جاسکتا۔ جبکہ آج ہم دیکھ رہے ہیں ہوٹلنگ کا ایک بڑا کاروبار ہے، ایجوکیشن مافیا بن چکا ہے اور علاج کے نام پر عوام الناس کو لوٹا جاتا ہے۔ موجودہ رائج نظاموں پر آپ نے کہاکہ آج چاہے جمہوریت ہو کمیونزم ہو کیپیٹلزم ہوں یا کوئی بھی نظام ہو تمام نظام اپنی موت آپ مرچکے ہیں اور اس سسکتی ہوئی انسانیت کو نظام خلافت کی ضرورت ہے جس کی ذرینّ مثال ہم کو ہمارے اسلاف میں نظر آتی ہے۔اِس لئے امت مسلمہ کو چاہیے کہ وہ باطل نظاموں کی پیروی کرنے کی بجائے،اُن کے پیچھے چلنے کی بجائے خلافت کو جاننے، سمجھنے اور اس کو نافذ کرنے کی جدوجہد کرے تاکہ اس سسکتی ہوئی انسانیت کو عدل و انصاف دلایا جا سکے اور پوری دنیا میں امن قائم کیا جا سکے۔ کیونکہ انسانیت کا مداوا صرف اور صرف نظامِ خلافت و اسلامی حکومت ہی میں پوشیدہ ہے۔اس خطاب میں کثیر تعداد میں مرد و خواتین نے شرکت فرمائی۔ خواتین کےلئے پردے کا نظم کیا گیا تھا۔خطابِ عام کو کامیاب بنانے میں اکولہ اکائی کے تمام رفقاء نے اپنی خدمات پیش کی۔
jamsham hair oil contact for distirbutor ship 01

kawishejameel

chief editor

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: مواد محفوظ ہے !!