حصارِ چرخ میں اک در بنانے والا ہوں
پھر اس میں بہتا سمندر بنانے والا ہوں
ہیں شیشہ گر بھی مخالف خلاف سنگ تراش
میں آئینے کو جو پتھر بنانے والا ہوں
گلاب پاک کریں اوس سے سماعت کو
میں بلبلوں کو سخنور بنانے والا ہوں
تمام پریوں کا ہی احتجاج جارہی ہے
میں تیرا چاند پہ جو گھر بنانے والا ہوں
خفا ہیں مجھ سے خیالات فکر و فن والے
غزل کا تم کو جو محور بنانے والا ہوں
قلم دوات نہ دو مجھ کو نفرتوں والے
محبتوں کے میں منظر بنانے والا ہوں
مرے خلاف ہیں مرشد بھی پیر بھی شاداب
گداگروں کو قلندر بنانے والا ہوں