تو چل کے اندھیرے خود اوقات پے آگیا
مانگنے مدّت اجالے سے خیرات پے آگیا
ہمارے ابر کیا ہوے شامل تیری سمت کو
تو لے کے اپنی کہانی کو برسات پے آگیا
ہے تیری کتابیں گواہ شجاعت کی ہماری
تو چھوڑ کے سارے اسباق اپنی ذات پے آگیا
دیا تھا فوج نے اعزاز بھروسہ تجھے کبھی
ٹیپو کو مٹانے میر بن کے بغاوت پے آگیا
قصّہ یہی رہا ہے ہار کا عالم ازل سے ہمارا
کوئی تو ہے دغا باز جو منافقت پے آگیا