لوک سبھا انتخابات مودی اور شاہ کے ذاتی مستقبل کا بھی فیصلہ ہے!
مشرف شمسی میرا روڈ ،ممبئی
موبائل 9322674787
میں نے دو ہفتے پہلے اپنے مضمون میں لوک سبھا انتخابات سپریم کورٹ کی نگرانی میں کرانے کی بات کی تھی ۔دو دن پہلے یہی مطالبہ تریںمل کانگریس کے بڑے رہنماء ڈیریک اوبرائن نے کی ہے ۔چنڈی گڑھ کے مئیر چناو میں جس طرح کی دھاندلی پریذائیڈنگ آفیسر انیل مسیح نے کیا اس سے صاف ہو چکا ہے کہ بی جے پی کے لئے چھوٹے سے چھوٹا الیکشن کیا معنی رکھتا ہے۔پھر جس طرح سے الیکشن کمشنر تقرری کا جانب دار سلیکشن پینل پر مبنی پارلیمنٹ میں قانون بنایا گیا اور پھر جلد بازی میں دو الیکشن کمشنر کی تقرری کی گئی اس سے بھی صاف ہو چکا ہے کہ بی جے پی سام ،دام ،دنڈ اور بھید کے ذریعہ کسی بھی طرح یہ عام انتخابات جیتنا چاہتی ہے ۔بی جے پی سے منسلک تین ڈائریکٹر ای وی ایم بنانے والی کمپنی سے جُڑے ہونے کا انکشاف ہو چکا ہے اس کے باوجود الیکشن کمیشن حزب اختلاف کے سامنے ای وی ایم کھول کر دیکھانا نہیں چاہتی ہیں ۔یہ الزام کانگریس کے رہنماء راہل گاندھی نے الیکشن کمیشن پر لگایا ہے۔سرکار کچھ دنوں پہلے جو دو الیکشن کمشنر تقرر کئے ہیں اُن میں ایک کا تعلق رام مندر تحریک سے ہے ایسی بھی جانکاری ہے۔ایسے میں الیکشن کمیشن کس طرح سے صاف و شفاف انتخابات کرائیں گے یہ کہنا مشکل ہے ۔خود چیف الیکشن کمشنر راجیو کمار سے جب ایک پریس کانفرنس میں ایک خاتون صحافی نے سوال کیا کہ جب وزیر اعظم مودی اور وزیر داخلہ انتخابی ضابطہ اخلاق توڑتے ہیں تو الیکشن کمیشن کسی طرح کی کاروائی نہیں کرتی ہے اس کے جواب میں چیف الیکشن کمیشن سے جواب دیتے نہیں بن رہی تھی ۔آخر میں راجیو کمار نے کہا کہ آپ مجھ پر جانب داری کا الزام لگا رہی ہیں لیکن راجیو کمار بنا مودی اور امیت شاہ کا نام لئے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن انتخابی ضابطہ اخلاق توڑنے کی شکایت کی جانچ کرتی ہے اور اس جانچ میں ضابطہ اخلاق توڑنے کی بات صحیح پائی جاتی ہے تو کسی کو بھی نہیں بخشا جاتا ہے ۔
لیکن گزشتہ دس سال سے جس طرح سے موجودہ سرکار جمہوریت میں چیک اینڈ بیلنس کرنے والے سبھی ادارے کی آزادانہ شناخت ختم کرنے کی کوشش کی ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے ۔ساتھ ہی کسی بھی طرح سے الیکشن جیتنے کی چاہت سرکار کی سب سے بڑی اخلاقی پستی ہے۔ایسا نہیں ہے کہ 2014 سے پہلے سیاسی جماعتیں الیکشن جیتنے کے لئے غیر اخلاقی طریقے استعمال نہیں کرتی تھی لیکن سب کچھ پوشیدہ ہوتا تھا لیکن اب سب کچھ ڈنکے کی چُوت پر ہوتا دکھائی دیتا ہے ۔اسکی اہم وجہ مین اسٹریم کی میڈیا ایسا کُچھ بھی دیکھانا نہیں چاہتی ہے جہاں بی جے پی کچھ گڑبڑ کر رہی ہو۔مین اسٹریم میڈیا کا سرکار کے سامنے نمستك ہو جانے سے سارے جمہوری ادارے سرکار کے ہاتھوں میں کٹھ پُتلی بن چکی ہیں ۔لیکن ان اداروں میں موجودہ چیف جسٹس کی قیادت میں سپریم کورٹ قانون کے مطابق فیصلہ لیتی نظر آ رہی ہے۔موجودہ لوک سبھا انتخابات آزادانہ ہو سکے اور بھارت کے لوگوں کا یقین جمہوریت میں باقی رہ سکے اس کے لیے سپریم کورٹ کو ای وی ایم اور دو الیکشن کمشنر کی تقرری پر کچھ نہ کچھ اہم فیصلے دینے ہونگے۔ورنہ اس الیکشن میں حزب اختلاف کی شکایتوں کو نظر انداز کر چناو پورے ہوتے ہیں تو یقین مانئے بھارت جمہوریت کے معنی کھو دیگا اور پھر روس اور چین کی طرح یہاں بھی الیکشن ہونگے۔مودی اور شاہ جانتے ہیں کہ موجودہ لوک سبھا کا چناو اُنکے سیاسی مستقبل کا فیصلہ تو ہے ہی اُنکے ذاتی مستقبل کا بھی فیصلہ کریگی۔اسلئے اُنہیں ہر حال میں چناو جیتنا ہے۔