ملک کے موجودہ حالات کے پیش نظر ہرمدارس میں مضبوط شوری کا ہونا ضروری ہے!
سرفرازاحمدقاسمی،حیدرآباد
برائےرابطہ: 8099695186
آج کافی دیرکےبعد پاسبان(حلقہ پاسبان علم وادب)کا دریچہ کھولا,تقریباً ڈھائی سو میسیج تھے,شروع میں لگا کہ کسی ناظم مدرسہ کی حجامت بن رہی ہے,مگر کون ہے, اور کیوں مشق ستم ہے؟, کچھ واضح نہیں ہوا,میسیج پڑھتا گیا,پرتیں کھلتی گئیں,اللہ تعالیٰ ہم سب کی حفاظت فرمائیں, مدرسوں اوردینی اداروں کی نظامت کاٹوں بھراتاج ہے,کبھی ناظم کوخود مختار نہیں بننا چاہیے,بلا باؤچر کوئی رقم نہ خرچ ہو,آمد وصرف کی مکمل تفصیل ریکارڈمیں رکھنا لازم ہے, ایک خزانچی رکھیں,اکاؤنٹ جوائنٹ ہونا بہت زیادہ ضروری ہے,شوری کے رو برو ہرسال حساب وکتاب اورمدرسوں سےمتعلق تفصیل پیش کیا جائے,اگر آپ کی زیر نظامت نسواں ہے,تو کبھی کسی سے بے حجاب نہ ملیں,حجاب میں بھی بات کرنا ہوتو آپ کے ساتھ ایک دو شخص ضرور ہوں,فتنوں کازمانہ ہے, دین کی خدمت میں اللہ تعالیٰ نے لگا رکھا ہے,تو اس کا کرم ہے,اخلاص اورامانت داری کوپیش نظر رکھیں،مگر عزت وآبرو بہت بڑی چیز ہے, ایک بار چلی گئی تو پھر واپس نہیں آتی, اللہ تعالیٰ فیض عام کو ہرقسم کے شروروفتن سے محفوظ فرمائیں.
ہر مدرسےاوراداروں میں مضبوط شوری ضروری ہے,بس لازم ہے کہ ارکان شوری صالح ہوں, امانت دار ہوں,علماء اوردینی مدارس کےخیرخواہ ہوں،شوری میں کچھ علماء کاہونا بھی ضروری ہے,اگر کوئی ناظم مدرسے کےاصولوں کی مخالفت کرے,مجلس شوری کی ماتحتی قبول نہ کرے,تو اسےہٹادینا چاہیے,اور کسی دوسرے ناظم کا انتخاب کرنا چاہیے,اس طرح ایک شخص برطرف ہوتاہے,اگر وہ باصلاحیت ہوگا تو ان شاءاللہ ضائع نہیں ہوگا,کہیں لگ ہی جائے گا,لیکن اس طرح مدرسہ محفوظ رہے گا, ادارہ فرد سے کہیں زیادہ اہم ہوتاہے, ادارے کی بقا کی فکر زیادہ اہم ہے،جسکےاندر قربانی کا جذبہ نہیں,اس کو ناظم بھول کر بھی نہیں بننا چاہیئے,نظامت عیش پرستی کےلئے نہیں ہے,بلکہ نظامت توصرف قربانی کےلئے ہی ہے, میرے یہاں دورہ تک کا نظام ہے, الحمدللہ آج تک کسی معلمہ یا کسی طالبہ سے بے حجابی کی نوبت نہیں آئی,ایک معلمہ کو ذمہ دار بنادیاگیا ہے, ان کےتوسط سےسارا نظام چلتا ہے, پورے پاسبان کو دعوت ہے,آئیں ہمارا نظام دیکھیں,غیر اقامتی بغیر کسی فیس کے ہمارا مدرسہ چل رہا ہے الحمد لله..جن افراد میں مسئولیت کا احساس نہیں ہوتا پتہ کرلیجئے وہ ضرور امانتوں میں خیانت کررہے ہونگے۔اورجس سماج میں سوال کرنے کی اجازت نہیں ہوتی دراصل وہ سماج ذہنی غلام ہوتا ہے۔
جو معاشرہ قومی وملی اداروں کااحتساب نہیں کرتا وہ ادارے جمود و تعطل اور پھربہت جلد زوال کا شکار ہوجاتے ہیں ایک دن ایسا بھی آتا ہےکہ وہ اپنی افادیت کھودیتے ہیں عین ممکن ہے کہ وہ مضر بھی ثابت ہونے لگیں۔جن اداروں میں دین کی خدمت بے دینی اوربےاصولی کے ساتھ ہوگی وہاں سے دین نہیں،بے دینی ہی پھیلے گی۔
اس لئے ہم سبکواسکاخیال رکھناچاہئے،ملک کے حالات بہت تیزی سے تبدیل ہورہےہیں،آگے کیا ہوگا کچھ کہا نہیں جاسکتا،لہذااگر آپ کسی ادارے کے ذمہ دارہیں تو وہاں کانظام صاف وشفاف رکھیں،چوکنارہیں،زمین وغیرہ کے کاغذات درست رکھیں،کوئی مسئلہ پیدا ہوتو اشتعال انگیزی کے بجائے حکمت عملی سے اسے دور کریں،تعلیمی معیارکو بہتر سے بہتر بنائیں،باصلاحت اساتذہ کی قدرکریں،انھیں آزادی کے ساتھ کام کرنےدیں،بلاضرورت انکے کام میں رکاوٹ پیدا نہ کریں،طلباء کی سہولیات پرتوجہ دیں،انکی پریشانیوں کاخیال رکھیں،اساتذہ کو وقت پر تنخواہ دینے کی کوشش کریں،مدرسے کے محبین،معاونین اورمحسنین کو ہمیشہ یادرکھیں،جولوگ اپنے محسنین کو بھلادیتے ہیں انھیں بھی بھلادیاجاتاہے،مدرسے کی ہرطرح کی تعمیروترقی کےلئے اپنے دل کو کشادہ رکھیں،کھلے دل کے ساتھ فکرمند اورخیرخواہ حضرات سے وقتا فوقتا مشاورت ضرورکیا کریں،جن لوگوں کوادارے سے دلچسپی نہ ہو انکو کبھی ذمہ دارنہ بنائیں،ایسے لوگوں سے فائدے کے بجائے ہمیشہ نقصان ہوتاہے اللہ تعالی ہم سبکی اور ہمارے اداروں کی حفاظت فرمائےآمین۔
(مضمون نگارکل ہندمعاشرہ بچاؤ تحریک کے جنرل سکریٹری ہیں)