ونچیت بہوجن اگھاڑی آئندہ لوک سبھا انتخابات میں کیا انڈیا اتحاد اورمہاوکاس اگھاڑی کا بگاڑے گی حساب ؟ ؛ پڑھیں کاوش جمیل کی تفصیلی رپورٹ
کاوش جمیل کی اسپیشل رپورٹ
ونچیت بہوجن اگھاڑی نے اعلان کیا ہے کہ اگر بھارت راشٹریہ سمیتی سے اتحاد کی تجویز آتی ہے تو وہ اس پر ضرور غور کرے گی۔ اگر بھارت راشٹریہ سمیتی اگر اتحاد کے لئے ہاتھ بڑھاتی ہے تو کیا پرکاش امبیڈکرادھو ٹھاکرے کے ساتھ ہوئے اتحاد کو توڑدیںگے اس طرف سبھی کی نگاہیں ہوگی.اگر ونچیت مستقبل میں ایسا موقف اختیار کرتی ہے تو سیاسی حلقے میں اس بات پر بحث شروع ہو گئی ہے کہ 2019 کی طرح 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں بھی انڈیا اتحاد اورمہواکاس اگھاڑی کا حساب خراب کرے گی۔
2019 کے لوک سبھا انتخابات میں پسماندہ طبقے کے لیڈر ایڈوکیٹ پرکاش امبیڈکر نے اسدالدین اویسی کی ‘ایم آئی ایم’ پارٹی کے ساتھ اتحاد کیا تھا، جس نے کانگریس اور این سی پی کے اتحاد کا حساب بگاڑ دیا تھا۔ لوک سبھا انتخابات میں تقریباً 14 فیصد ووٹ لئے گئے۔ 2019 میں، ونچیت بہوجن اگھاڑی نے تقریباً 15 سرکردہ امیدواروں کی شکست میں اہم کردارادا کیا۔ ونچیت نے تقریباً 50 ہزار سے لے کر 3 لاکھ تک کے ووٹ حاصل کرکے سرکردہ امیدواروں کی تعداد خراب کردی تھی۔
ونچیت-ایم آئی ایم کے امیدوار سید امتیاز جلیل نے اورنگ آباد لوک سبھا حلقہ میں شیوسینا کے امیدوار چندرکانت کھیرے کو شکست دی۔ ناندیڑ، پربھنی، سانگلی، اکولہ، ہنگولی، بلڈھانہ، سولاپور، ہتکانگلے، لاتور، گڈچرولی-چیمور، ناسک، عثمان آباد، ایوت محل-واشیم، بیڑ، راویرلوک سبھا حلقوں میں انہوں نے سرکردہ امیدواروں کو شکست دینے میں تعاون کیا۔ اس میں بنیادی طور پر کانگریس کے دو سابق وزرائے اعلیٰ کو شکست ہوئی۔ ناندیڑ سے اشوک چوہان اور سولاپور سے سشیل کمار شندے کو ونچیت نے بے دخل کر دیا۔
ونچیت فی الحال شیو سینا (ادھو بالا صاحب ٹھاکرے) گروپ کے ساتھ اتحاد میں ہے۔ مہاوکاس اگھاڑی کی دو پارٹیوں کانگریس اور این سی پی کے خلاف پرکاش امبیڈکر کی خصوصی رنجش بار بار منظر عام پر آئی ہے۔ لہٰذا یہ دونوں پارٹیاں مہاوکاس اگھاڑی میں ونچیت کو قبول کرنے کو تیار نہیں تھیں۔ اس میں اجیت پوار نے این سی پی سے بغاوت کرکے بی جے پی کے ساتھ اقتدار میں شامل ہونے کا انتخاب کیا ہے۔ اس کے علاوہ، بھارت راشٹریہ سمیتی نے مہاراشٹر میں ودربھ اور مراٹھواڑہ کے علاقوں میں شدید پارٹی کی توسیع کی پالیسی اپنائی ہے۔ اس لیے بھارت راشٹریہ سمیتی کو کانگریس بی جے پی کی ‘بی’ ٹیم سمجھتی ہے۔ ایسے میں اگر بھارت راشٹریہ سمیتی، جسے ایک مضبوط معاشی طاقت کی حمایت حاصل ہے، ونچیت کے ساتھ اتحاد کرنے کے لیے ہاتھ بڑھاتی ہے، تو امکان ہے کہ ونچیت بہوجن اگھاڑی اوربھارت راشٹریہ سمیتی ادھو ٹھاکرے کی حمایت چھوڑ کر لوک سبھا انتخابی میدان میں اُترے گی۔ ریاست میں آئندہ لوک سبھا انتخابات کولیکرمہاویکاس اگھاڑی کے لیڈران کو ڈر ہے کہ ونچیت 2019 کی طرح 2024 میں بھی بھارت راشٹریہ سمیتی کے ساتھ دوبارہ اتحاد کرے گی اورمہاوکاس اگھاڑی کے امیدواروں کے ووٹوں کو تقسیم کرے گی۔ اب دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ آئندہ لوک سبھا انتخابات کوسامنے رکھتے ہوئے کون کس کے ساتھ جائے گا اور کون کس کا حساب خراب کرے گا.