ویلنٹائن ڈے بے حیائی کا عالمی دن!
از قلم: محمد فرقان
(بانی وڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)
اللہ تبارک و تعالیٰ نے مسلمانوں کو ایک پاکیزہ مذہب اور تہذیب عطاءکیا۔ دین اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات کا نام ہے۔ جس نے انسان کو زندگی کے ہر گوشے میں رہنمائی فراہم کی ہے۔ اسلام نے جہاں ہمیں نماز، روزہ، حج، زکوٰة اور دیگر عبادات کے حوالے سے رہنمائی فراہم کی وہیں سیاست، معاشرت، معاشیات، اخلاقیات اور دیگر شعبہ ہائے زندگی میں بھی بھرپور تعلیمات عطاءکی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کی کرنیں مکہ و مدینہ سے نکل کر پوری دنیا میں پہنچ چکی ہیں۔ اور دن بدن بلاد کفار میں بسنے والے لوگ دائرہ¿ اسلام میں داخل ہورہے ہیں۔ آج مغرب میں اسلام سب سے مقبول اور تیزی سے پھیلنے والا مذہب بن چکا ہے۔ اسلام اور مغربی تہذیب کی کشمکش صدیوں سے جاری ہے۔اسلام کی بڑھتی مقبولیت کو دیکھ کر مغرب نہ صرف پریشانی میں مبتلا ہے بلکہ اسلامی تعلیمات اور تہذیب پر منصوبوں کے تحت حملے کیے جارہا ہے اور ان مذموم مقاصد کو سر انجام دینے کیلئے باقاعدہ مختلف ادارے دن رات سرگرم ہیں۔ مغرب کے مشترکہ اہداف میں اولین ہدف مسلم معاشرے میں بے حیائی، بے شرمی، جنسی بے راہ روی اور شہوت رانی کا فروغ دینا ہے۔ اسی کے پیش نظر مغربی تہذیب نے معاشرے میں مختلف بے ہودہ رسوم و رواج، بدکاری و بے حیائی کو جنم دیا ہے۔ انہیں میں سے ایک 14 فروری کو” یوم محبت“ کے نام سے منایا جانے والا” ویلنٹائن ڈے“ ہے۔ جس کی بنیاد بے حیائی، بے شرمی، بدکاری اور زنا پر ہے۔ افسوس کہ آج مسلمان بھی مغرب کی اس سازش کا شکار ہوچکے ہیں۔
حیا نہیں ہے زمانے کی آنکھ میں باقی
خدا کرے کہ جوانی تری رہے بے داغ
ہر سال 14 فروری کو دنیا کے مختلف حصّوں بالخصوص مغربی ممالک میں ”ویلنٹائن ڈے“ کو بے حیائی کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس موقع پر ناجائز طریقے سے محبت کرنے والوں کے درمیان نہ صرف مٹھائیوں، پھولوں، کارڈز اور ہر طرح کے تحائف کا تبادلہ ہوتا ہے بلکہ ناجائز تعلقات بھی قائم کئے جاتے ہیں۔ کارڈز بھیجنے کے حوالے سے ایک تحقیق کے مطابق عیسائیوں کا تہوار کرسمس کے بعد یہ دوسرا بڑا موقع ہوتا ہے۔ آخر ویلنٹائن ڈے کے پیچھے کیا کہانی ہے؟ آئیے اس حوالے سے سب سے مشہور روایات اور واقعات پر نظر ڈالتے ہیں۔ بعض کے نزدیک یہ وہ دن ہے جب ”سینٹ ویلنٹائن “نے روزہ رکھا تھا اور لوگوں نے اسے” محبت کا دیوتا“ مان کر یہ دن اسی کے نام کر دیا۔ کئی شرکیہ عقائد کے حامل لوگ اسے یونانی کیوپڈ (محبت کے دیوتا) اور وینس (حسن کی دیوی) سے موسوم کرتے ہیں، یہ لوگ کیوپڈ کو ویلنٹائن ڈے کا مرکزی کردار کہتے ہیں، جو اپنی محبت کے زہر بُجھے تیر نوجوان دلوں پر چلا کر انہیں گھائل کرتا تھا۔ تاریخی شواہد کے مطابق ویلنٹائن کے آغاز کے آثار قدیم رومن تہذیب کے عروج کے زمانے سے چلے آرہے ہیں۔ (ویلنٹائن ڈے تاریخ، حقائق اور اسلام کی نظر میں: 40)
ایک مشہور واقعہ یہ ہیکہ تیسری صدی عیسوی میں ایک ”ویلنٹائن“ نام کا پادری راہبہ کی محبت میں مبتلا ہوچکا تھا۔ چونکہ عیسائیت میں راہبہ سے نکاح ممنوع تھا اسلئے ایک دن پادری نے اپنی معشوقہ کو بتایا کہ اس نے خواب میں دیکھا کہ 14 فروری کو اگر کوئی راہبہ سے جسمانی تعلق کرلے تو وہ گناہ میں شامل نہیں ہوگا۔ راہبہ نے اسکی بات پر یقین کرلیا اور دونوں اس دن وہ سب کچھ کر گزرے۔ کلیسا کی روایات کی یوں دھجیاں اڑانے پر انکا حشر وہی ہوا جو عموماً ہوا کرتا ہے، یعنی ان دونوں کو قتل کردیا گیا۔ لیکن کچھ عرصہ بعد چند لوگوں نے انہیں ”محبت کا شہید “جان کر عقیدت کا اظہار کیا اور انکی یاد میں یہ دن منانا شروع کردیا۔ (ویلنٹائن ڈے تاریخ، حقائق اور اسلام کی نظر میں: 41)
تاریخ یہ بھی بتاتی ہیکہ روم کے جیل خانہ میں ایک ایسے شخص کو مقید کردیا گیا جو راتوں کو لوگوں کے گھروں میں گھس کر عورتوں کے ساتھ زیادتی کرتا تھا۔ اس قیدی کا نام پادری” سینٹ ویلنٹائن“ تھا، جس کے نام سے اس تہوار کو منسوب کرکے شہرت دی گئی۔جس جیل میں اسے قیدی بنا کر رکھا گیا تھا اس جیل کی جیلر کی بیٹی روزانہ اپنے والد کو کھانا دینے جیل آیا کرتی تھی، پادری نے کسی طریقے سے اس لڑکی کو اپنی طرف مائل کرلیا، جس کے نتیجے میں اسے جیل سے رہائی نصیب ہوئی۔اس کے بعد اس نے کچھ عرصہ ناجائز طریقے سے اسی داروغہ کی بیٹی کے ساتھ گزارا اور ایک دن اسے چھوڑ کر ایسے غائب ہوا کچھ سراغ نہ ملا! (ویلنٹائن ڈے تاریخ، حقائق اور اسلام کی نظر میں: 48)
اس طرح کی مختلف داستانیں تاریخ کے اوراق میں درج ہیں، جن کا خلاصہ یہ ہیکہ” ویلنٹائن ڈے“ کی بنیاد ہی کلی طور پر فحاشی، عریانی، بے حیائی اور بدتہذیبی پر مبنی ہے۔ ویلنٹائن ڈے بے حیائی کو فروغ دینے کا باعث ہے،اس کا مقصد صرف اور صرف مرد و عورت کو ایک دوسرے کے قریب لانا ہے اور جنسی بے راہ روی کو محبت کا لبادہ پہنا کر ناجائز تعلقات قائم کروانا ہے۔یہ اسلامی معاشرہ و تہذیب کو تباہ و برباد کرنے کی عالم کفر کی نہ صرف سازش ہے بلکہ اولین ہدف ہے۔ افسوس کی بات ہیکہ” ویلنٹائن ڈے“ کے نام پر منایا جانے والا بے حیائی کے اس عالمی دن میں اب مسلمان بھی شریک ہورہے ہیں اور بے حیا، بے شرم اور دوسروں کی بیٹیوں کی عزت پر ڈاکا ڈالنے والے عیسائی پادری کی روایات کو زندہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہیکہ آج معاشرے میں اخلاقیات کا وجود ختم ہوتا نظر آرہا ہے، خاندانی نظام تباہ و بربا ہورہا ہے، مقدس رشتوں کی اہمیت ختم ہوتی جارہی ہے، عصمت و عفت اور پاکدامنی اور شرم و حیا اپنی آخری سانس لینے پر مجبور ہے۔ ان سب حالات کے باوجود بھی بدقسمتی سے آج کل کے ماڈرن مسلمان دین اسلام کی پاکیزگی تہذیب و تمدن کو چھوڑ کر مغرب کا تھوک چاٹنا اپنے لئے باعث فخر سمجھتے ہیں۔ اسلامی تہذیب، مذہبی و معاشرتی روایات کا تحفظ کرنے کے بجائے ویلنٹائن ڈے جیسے فحاشی اور بے غیرتی پر مبنی مغربی انداز ثقافت کے فروغ میں مسلمان شرم ناک کردار ادا کررہا ہے، کسی شاعر نے کیا خوب کہا:
جو درر ملا اپنوں سے ملا
غیروں سے شکایت کون کرے؟
اسلام تو ”حیا “کی تعلیم دیتا ہے اور اسکی پاسداری کی خوب ترغیب دیتا ہے بلکہ حیا کو ایمان کا شعبہ قرار دیا گیا ہے۔ بخاری شریف کی روایت ہیکہ ”حیا ایمان کا ایک اہم جز ہے!“ (صحیح البخاری ،163)۔اور ایک دوسری حدیث میں فرمایا کہ ”بے شک ہر دین کی کوئی خاص خصلت (فطرت، مزاج یا پہچان) ہوتی ہے اور اسلام کی وہ خاص خصلت حیا ہے!“ (ابن ماجہ، 4181)۔ یہی وجہ ہے کہ عالم کفر نے اسلام کی پہچان” حیا“ پر حملہ کرکے اپنی دشمنی کا آغاز کیا۔ اور آج 14 فروری آتے ہی بے ہودگی اور بے حیائی کا سیلاب امڈتا چلا آتا ہے۔ نسل نو اپنے مقصد حیات کو چھوڑ کر بے حیائی کا ننگا ناچ کھیلنے لگتی ہے اور ہمارے تعلیمی اداروں میں بھی اس بے حیائی کا سبق دیا جانے لگا ہے۔ نہ صرف عیسائی مشنریز کے پابند تعلیمی ادارے بلکہ آج کل مسلم اسکولز، کالجز اور یونیورسٹیس میں بھی پابندی کے ساتھ ویلنٹائن ڈے منا کر عذاب خداوندی کو دعوت دی جاتی ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ ”اِنَّ الَّذِی±نَ یُحِبُّو±نَ اَن± تَشِی±عَ ال±فَاحِشَةُ فِی الَّذِی±نَ اٰمَنُو±ا لَہُم± عَذَابµ اَلِی±مµ فِی الدُّن±یَا وَال±اٰخِرَةِ “کہ ”جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ایمان والوں میں بے حیائی پھیلے ان کیلئے دنیا و آخرت میں دردناک عذاب ہے!“ (سورة النور: 19)
اسلام دین فطرت ہے اور محبت فطرت کا تقاضا ہے، اسلام نے محبت کرنے سے نہیں روکا بلکہ اسکے کچھ حدود و قیود مقرر فرمائی تاکہ مسلمان محبت اللہ اور اسکے رسول اور انکے ارشادات کے مطابق جائز طریقے سے کرے۔لیکن ویلنٹائن ڈے کے دن ایک لڑکا ایک لڑکی سے ناجائز طریقہ سے اظہار محبت کرتا ہے۔ آج اس رسمِ بد نے ایک طوفانِ بے حیائی برپا کردیا ہے۔ عفت و عصمت کی عظمت اور رشتہ¿ نکاح کے تقدس کو پامال کردیا ہے۔ معاشرہ کو پورا گندہ کرنے اور حیا و اخلاق کی تعلیمات، اور جنسی بے راہ روی کو فروغ دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑا ہے، بر سرعام اظہار محبت کے نت نئے طریقوں کے ذریعہ شرم و حیا، ادب وشرافت کو ختم کردیا گیا ہے۔ اور افسوس کی بات ہیکہ آج ملت اسلامیہ کے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں بھی ویلنٹائن ڈے منارہی ہیں۔ یہی وجہ ہیکہ آج ہماری نسل نو سے دین و شریعت کا تصور ختم ہوتا جارہا ہے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے واضح طور پر ارشاد فرمایا کہ ”حیا اور ایمان یہ دنوں ہمیشہ ساتھ اکٹھے رہتے ہیں، جب ان دونوں میں سے کوئی ایک اٹھا لیا جائے تو دوسرا بھی اٹھا لیا جاتا ہے!“ (شعب الایمان)۔اور اسی کے ساتھ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہیکہ” ویلنٹائن ڈے منانا سراسر حرام ہے۔“کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہیکہ ”قُل± اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ ال±فَوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِن±ہَا وَمَا بَطَنَ“ کہ ”کہ دو میرے پروردگار نے تو بے حیائی کے کاموں کو حرام قرار دیا ہے، چاہے وہ بے حیائی کھلی ہوئی ہو یا چھپی ہوئی ہو“(سورہ اعراف، 33)۔ اور ویلنٹائن ڈے منانا کھلے عام زنا کرنے کے برابر ہے، ویلنٹائن ڈے یوم محبت نہیں بلکہ یوم زنا ہے۔ بخاری شریف کی روایت ہیکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سر عام گناہ کرنے کے وبال پر فرمایا کہ ”میری پوری امت معاف کردی جائے گی، لیکن کھلم کھلا گناہ کرنے والوں کو معاف نہیں کیا جائے گا۔“ اور ویلنٹائن ڈے منانے کا مطلب عیسائیوں کی مشابہت اختیار کرنا ہے اور اللہ کے رسول نے واضح طور پر کہا کہ ”جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرتا ہے وہ انہیں میں سے ہے!“(ابو دا¶د، 4033)
آج مسلمان مغرب کی اس سازش میں اس طرح پھنستا چلا جارہا ہے وہ اپنی شناخت اور پہچان ہی بھلا بیٹھا ہے۔نبی کریم نے جو معاشرے قائم فرمایا اسکی بنیاد” حیا “پر رکھی جس میں زنا کرنا ہی نہیں بلکہ اسکے اسباب پھیلانا بھی ایک جرم تھا۔ جس دین کی پہچان اور بنیادی ہی حیا ہو اس میں بے حیائی کی کہاں گنجائش ہوسکتی ہے؟جو شریعت عورتوں کو پردہ میں رکھنے کا حکم دیتی ہو وہ کیوں کر ویلنٹائن ڈے منانے کی اجازت دے گی؟اور یہ بات واضح ہیکہ” ویلنٹائن ڈے منانے کی اسلام میں قطعاً اجازت نہیں۔“ ہمیں تو چاہئے تھا کہ ہم اپنے آقا دوعالم جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی تہذیب و ثقافت کو اس طرح غالب کرتے کہ عالم کفر بھی اسکی نقالی پر مجبور ہوجاتا۔ لیکن ہائے افسوس کہ ہم اسکے برعکس کام کررہے ہیں۔کیا کمی تھی میرے آقا کی پاکیزہ تہذیب و ثقافت میں کہ ہم نے اسے اپنے معاشرے سے ہی جدا کردیا؟ اور نبی کے دشمنوں کی غلیظ تہذیب کو سینے سے لگایا؟ کیا ہم اس طوفان بے حیائی سے اپنے آقا کو تکلیف نہیں پہنچا رہے رہیں؟ جس نبی نے ہماری خاطر اپنا سب کچھ قربان کردیا آج ہم نے انہیں یہ صلہ دیا کہ انکی سنت و شریعت کو ہی اپنی زندگی سے نکال دیا، کیا یہی ایمان اور عشقِ رسول کا تقاضہ ہے؟ آج ویلنٹائن ڈے کے نام پر جو کچھ ہورہا ہے وہ تباہی و بربادی کے سوا کچھ نہیںہے۔ لہٰذا آج ضرورت ہیکہ ہم سب ملکر عہد کریں کہ دین اسلام کی تہذیب و ثقافت کی حفاظت کرتے ہوئے ویلنٹائن ڈے کا مکمل بائیکاٹ کریں گے، معاشرے کو پاکیزہ بنانے کی فکر کریں گے اور ہم اپنی محبت کو اسلام کی مقرر کردہ حدود و قیود یعنی پاکیزہ رشتوں تک ہی محدود رکھیں گے کیونکہ پاکیزگی ایمان کا حصہ ہے اور ہمارا ایمان ہماری شان، آن اور بان ہے!
اب جس کے جی میں آئے وہ پائے روشنی
ہم نے تو دل جلاکر سر عام رکھ دیا!
(مضمون نگار مرکز تحفظ اسلام ہند کے بانی وڈائریکٹر ہیں!)