مضامین

کیا یہ ہماری نسل کشی کا انتباہ نہیں ؟َ!

ڈاکٹر عابدالرحمن
( چاندور بسوہ) بلڈھانہ مہاراشٹر
آر پی ایف کانسٹیبل کی اپنے سینئر اورتین مسلم مسافروں کے قتل کے حوالے سے جو خبریں آرہی ہیں وہ انتہائی پریشان کن ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ واردات سے قبل وہ نارمل محسوس نہیں کررہا تھا اس کی ذہنی حالت ٹھیک نہیں تھی ،لیکن اس کی ذہنی حالت اصلاً کیوں ٹھیک نہیں تھی اس بات کو خود اسی نے آشکار بھی کردیا ہے۔ جو کچھ اس نے کیا وہ منھ بولتا ثبوت ہے اس بات کا کہ مسلمانوں کے خلاف جو نفرت سیاسی اسٹیجوں میڈیا کے مباحثوں اور سوشل میڈیا کی پوسٹوں سے دن رات پروسی جارہی ہے اس نے سلامتی اہلکاروں یعنی ان لوگوں کی ذہنی حالت تک ٹھیک نہیں رکھی جو نفرت کے اس پرچار اور اسکی وجہ سے ہونے والے جرائم کو روکنے اور اس سے عوام کی حفاظت کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ملک میں مسلم منافرت کا جو کھیل کھیلا جارہا ہے اور وہ اب اس نقطہءعروج کو پہنچ چکا ہے کہ جہاں ایک معمولی بات خواہ جھوٹی ہو یا سچی اکثریت کی بڑی اکثریت کو بلا کسی تردد کے مسلمانوں کے خلاف نہ صرف اکسادیتی بلکہ میدان میں بھی لے آتی ہے ۔حکومتیں چاہے کسی پارٹی کی ہوں وہ اب تک ہیٹ اسپیچ اور نفرت انگیز تقاریر کے معاملہ میں کوئی خاص کارروائی کرتی نظر نہیں آئی بلکہ اس ضمن میں معزز سپریم کورٹ کے احکامات کی بھی پروا نہیں کی جارہی ۔ ہاں اگر کوئی مسلم ان اشتعال انگیز تقاریر کا جواب دے دے تو اس پر سارا قانون تھوپ دیا جاتاہے۔ حکومتوں کی اس جانبداری کی وجہ سے یہ معاملات دن بہ بڑھے اور اکثریت کی ذہنی حالت کو اس حد تک خراب کرچکے ہیں کہ جس کا علاج اگر ناممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور نظر آرہا ہے ۔ حکومت کو چاہئے کہ مسلم منافرت سے متاثر اذہان کے لئے خصوصوی ڈی ریڈیکلائزیشن پروگرام شروع کرے۔ لیکن حکومت کی نیت اور حالت کا پتہ اس بات سے لگائیے کہ پچھلے کچھ دنوں سے مختلف علاقوں سے خبریں آرہی ہیں کہ وہاں کے اکثریتی لیڈروں نے مسلمانوں کو گاو ¿ں یا علاقہ خالی کرنے کی وارننگ دی ،اور ایسا نہ کرنے پر نہ صرف انہیں بلکہ انتظامیہ کو بھی نتائج کے بھگتنے کی دھمکیاں دیں، اسی طرح کی خبرحال ہی میں ہریانہ کے فساد زدہ علاقے سے بھی آئی ہیں ، مسلمان خوف و ہراس میں مبتلا ہیں لیکن حکومت کی طرف سے دھمکیاں دینے والوں کے خلاف کوئی کارروائی کی کوئی خبر ہے اور نہ خوف زدہ مسلمانوں کو حفاظت فراہم کرنے کے کسی اقدام کی۔ مطلب صاف ہے کہ یہ سب حکومت کی مرضی اور منشا ءہی کے تحت ہورہا ہے ۔اور شاید حکومت کی پشت پناہی کے باعث ہی ایسا ہوتا ہے کہ فسادات کے دوران یعنی جب مسلمانوں کو حفاظت کی شدید ضرورت ہوتی ہے شاذ و نادر ہی پولس اور سلامتی اہلکار مظلومین کی حفاطت کرتے پائے جاتے ہیںبلکہ فسادات کے بڑے ،انتہائی سفاک،شرمناک اورگھناو ¿نے معاملات میں تو اکثر یہی ہوتا ہے کہ ’مشتعل ہجوم پولس اہلکاروں پر حاوی ہوگیا ،مظلومین کو ان کی تحویل سے چھین لیا اور پھر ظلم و بربریت کا ننگا ناچ کیا‘ اس کے علاوہ تقریباً ہر فساد میں پولس پر مسلم مخالف جانبداری کے الزامات لگتے آئے ہیں اورپولس کا یہ رویہ بھی مسلم منافرت ہی کا نتیجہ لگتا ہے لیکن اب تک یہ سب کچھ فسادات اور اس کے بعد کی گرفتاریوں کے معاملات ہی تک دیکھا گیا تھا اب چیتن سنگھ کا مذکورہ واقعہ بتاتا ہے کہ سلامتی اہلکاروں کو کسی اکساہٹ کی بھی ضرورت نہیں ، ان کی ’ ذہنی حالت کسی بھی وقت بگڑ سکتی ہے اور وہ کسی بھی وقت مسلمانوں کو اپنی سروس رائفل سے نشانہ بنا سکتے ہیں اور ان کے بیچ میں کوئی ٹکا رام ہی کیوں نہ آئے اسے بھی بے دریغ راستے سے ہٹانے میں انہیں کوئی تردد نہیں ۔ حالانکہ سلامتی اہلکاروں کی ذہنی حالت کا اس درجہ ٹھیک نہ ہونا نہ صرف مسلمانوں بلکہ ملک کے ہر ہر شخص کے لئے ٹھیک نہیں لیکن فی الوقت اس کا نشانہ مسلمان ہیں ۔ خدا کرے کہ ہم غلط ہوں لیکن ہمیں لگتا ہے کہ یہ دراصل ہمارے لئے انتباہ ہے کہ ہمیں نسل کشی کا سامنا ہے ۔تو کیا ہماری سیاسی سماجی اور مذہبی قیادت اور عام مسلمانوں کے پاس اسے ٹالنے کا یا اس سے نمٹنے کا کوئی منصوبہ ہے؟

kawishejameel

chief editor

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: مواد محفوظ ہے !!