مضامین

ہم سیکولرازم کا بوجھ کب تک ڈھوئیں گے!؟

ڈاکٹرعابدالرحمن
(چاندور بسوہ،بلڈھانہ)
اشوک راو شنکر راو چوہان نے کانگریس پارٹی چھوڑدی اور بی جے پی میں شامل ہوگئے وہ تقریباً چار دہائیوں سے کانگریس پارٹی سے جڑے ہوئے تھے کئی بار مہاراشٹر اسمبلی کے ممبر رہے لوک سبھا کے ممبر بھی رہے مہاراشٹر کی کانگریس حکومتوں میں کابینی وزیر رہے مہاراشٹر کے وزیر اعلی بھی رہے ۔کانگریس سے ان کا تعلق خاندانی تھا ان کے والد مہاراشٹر کے وزیر اعلی مرکزی وزیر خزانہ اور وزیر داخلہ بھی رہ چکے ہیں۔ لیکن تعلق توڑنے میں یہ پشتینی قرابت حائل نہ ہوسکی۔ اب کانگریس کے پرانے اور بڑے لیڈران کا بی جے پی میں چلے جانا کوئی نئی بات نہیں رہ گئی اشوک چوہان سے پہلے بھی کئی سابق وزراءاعلی اور سابق مرکزی وزرا پشتینی کانگریسی لیڈران نیز راہل گاندھی کی کور ٹیم کے ممبران کانگریس چھوڑ کر بی جے پی میں جا چکے ہیں اور یہ لسٹ لمبی ہی ہوتی جارہی ہے کئی بڑے نام اور ہیں جن کے بارے میں نہ صرف یہ کہا جا رہا ہے کہ وہ کانگریس پارٹی چھوڑ سکتے ہیں بلکہ یہ بھی کہ وہ بی جے پی میں شامل ہو سکتے ہیں۔کانگریس چھوڑنا کوئی بات نہیں لیکن کانگریس چھوڑ کر بی جے پی میں چلے جانا بڑی بات ہے اس لئے کہ بی جے پی اور کانگریس دونوں اپنے آپ کو نظریاتی حریف مانتی ہیں کانگریس سیکولرازم کی دعویداری کرتی ہے اور بی جے پی کو فرقہ وارانہ سیاسی پارٹی کہتی ہے ،کانگریس سے بی جے پی میں جانا نظریاتی کایا پلٹ ہے اور یہ نظریاتی کایا پلٹ یک لخت ممکن نہیں ہے مطلب کانگریس کا سیکولرازم جھوٹا اور کھوکھلا ہے جو اپنے پشتینی ممبران کے اذہان بھی مضبوط نہ کرسکا ۔ کانگریس چھوڑ نے اور بی جے پی میں جانے والے زیادہ تر لیڈران اکثریتی فرقے کے ہیں ہر کانگریسی لیڈر کے مسلم وفادار ضرور ہوتے ہیں جو کہیں کارپوریٹر یا مقامی پنچایت میں ممبرہوتے ہیں کچھ اسمبلی کے ممبران بھی ہوتے ہیں لیکن ان بڑے لیڈران کے ساتھ ان کے مسلم وفاداروں کے پارٹی چھوڑنے کی خبریں بہت کم ہیں۔ کانگریسی لیڈران کے دھڑا دھڑا پارٹی چھوڑکر جانے سے کہیں ایسا نہ ہو کہ آنے والے دنوں میں کانگریس میں صرف مسلمان ہی رہ جائیں۔حالانکہ مسلمان لیڈران کے بی جے پی میں شامل ہونے کی بھی خبر یں ہیں لیکن بی جے پی کے منتخبہ اراکین میں مسلم نمائندگی صفر ہے۔ اسی طرح اس کی پالسی ساز اکائی میں بھی کسی مسلم کا نام نظر نہیں آتا پورے ملک میں بی جے پی کی انتہائی گہرے اثر و رسوخ کے چلتے کیا یہ بات عجیب نہیں لگتی کہ وہ اپنی پارٹی کے ٹکٹ پر ایک بھی مسلمان کو اسمبلی یا لوک سبھا نہیں پہنچا سکتی؟ الیکشنس میں جیتنے لائق مسلمان اگر بی جے پی میں شامل ہو بھی جائیں تو انہیں ٹکٹ ملے گا اور اگر ٹکٹ مل جائے تو ان کی جیت میں مدد کی جائے گی اس کی کوئی گارنٹی نہیں ہے۔بلکہ کانگریس مکت بھارت کے اسکے نعرے کا اصل مقصد مسلم مکت سیاست ہے وہ مسلمانوں کو اپنے ساتھ نہیں اپنے ماتحت رکھنا چاہتی ہے اور اس میں کامیاب بھی ہے، کانگریس مکت بھارت ہو نہ ہو مسلم مکت سیاست تو ہو ہی چکی ہے بی جے پی نے کانگریس کو مسلسل مسلمانوں کی پارٹی قرار دیاجس کی وجہ سے کانگریس مسلمانوں کے م کو بھی چھونے سے گریز کررہی ہے یہ وہی کانگریس پارٹی ہے جو اپنے آپ کو سیکولرازم کی امین اور بی جے پی کی سیاست کو فرقہ وارانہ سیاست کہتے نہیں تھکتی تھی جس نے بی جے پی کے خلاف یا اس کی مسلم دشمنی سے ڈرا کر ہمارے ووٹ لئے اور ستر سال تک ملک کے اقتدار پر بلا شرکت غیرے قبضہ جمائے رکھا۔ اس وقت بھی جو مسلمان کانگریس کے ٹکٹ پر الیکشن جیتتے تھے وہ پارٹی کی وجہ سے نہیں بلکہ مسلمانوں کے ووٹوں سے ہی جیتتے تھے ہندوستان بھر میں کوئی ایک مسلم نمائندہ بھی ایسا نہیں ہوگا جسے مسلمانوں کے علاوہ کوئی اور قوم ووٹ دیتی ہوگی یہاں مسلمانوں میں سے وہی رستم الیکشن جیتتا ہے جس کا اپنا بیس ہو جس کے حلقہ میں مسلمانوں کی اتنی اکثریت ہو کہ جسے ووٹوں کی تقسیم بھی متاثر نہ کرسکے۔لیکن اسے مسلمانوں کے بجائے پارٹی ہی کی نمائندگی کرنی ہوتی ہے، پارٹی لائن سے ہٹنا اس کے لئے جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہوتا۔ اور یہ صورت حال مسلمانوں کے لئے کسی مخمصے سے کم نہیں کہ کانگریس کنی کاٹ رہی ہے اور بی جے پی صرف استعمال کرتی ہے نمائندگی نہیں دیتی۔آزادی کے بعد بلکہ اس سے پہلے سے ہم کانگریس کے سیکولرازم کا بوجھ ڈھورہے ہیں لیکن کبھی ملکی سیاست کے مین اسٹریم میں شامل نہیں ہو سکے اس وقت بھی ملکی سیاست کے حاشیہ پرہی رہے جب کانگریس یکا و تنہا ملک کے اقتدار کی مالک تھی اور اب موجودہ صورت حال نے تو ہمیں اس حاشیہ سے بھی دھکیل کر پورے منظر نامے سے نکال باہر کردیا ہے۔ اب ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم سیکولر وں اور غیر سیکولر وں کو چھوڑ کر اپنی سیاست کریں۔وہ سیاست جس میں ہمارے نمائندے ہمارے اپنے ہوں، وہی لائن فالو کریں جو ہمارے لئے فائدہ مند ہو، اور اگر ایسا نہ کریں تو ہم ان کا محاسبہ کر کے انہیں’ تیر کی طرح’ سیدھا کرسکیں۔لیکن یہ بھی دھیان رہنا چاہئیے کہ کچھ نئی پرانی سیاسی اور مذہبی فیملیز اس سیاست کواپنی خاندانی سیاست چمکانے کا ذریعہ بنا کر ہمیں پھر اسی چکرویو میں نہ دھکیل دیں۔ ایسا بھی نہ ہو کہ ہماری ہمدردی میں جذباتی اور جارحانہ بیان بازی کے ذریعہ مخالفین کا کوئی ایجنٹ اپنا الو سیدھا کرنے کی سیاست کرے۔ موجودہ صورت حال میں یہ کام اتنا آسان بھی نہیںہے لیکن اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ ہزاروں لاکھوں میل کے سفر کی شروعات پہلے قدم سے ہی ہوتی ہے۔
jamsham hair oil contact for distirbutor ship 01

kawishejameel

chief editor

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: مواد محفوظ ہے !!