مضامین
4 جو ن ۔۔ مودی ہے تو یہ بھی ممکن ہے !!
از قلم: مدثر احمد شیموگہ
9986437327
پارلیمانی انتخابات کے نتائج کا اعلان 4 جون کو ہونے والا ہے ، پورے ملک میں اس الیکشن کے رزلٹ کے تعلق سے یہ کہا جارہاہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی اور انکی پارٹی کے آخر ی دن آچکے ہیں اورآنے والی حکومت غیر بی جے پی ہوگی ، آنے والے دنوں میں ملک میں نئی حکومت ہوگی اور جو تانہ شاہی قائم ہوچکی ہے اسکا زوال ہوگا، نہ مودی کی پارٹی چار سو پار ہوگی اور نہ ہی سیکولر پارٹیوں کی محنت بے کا ر ہوگی ۔ ملک کے حالات ، ملک کی سالمیت ، جمہوریت اور سماجی و معاشی حالات کو دیکھا جائے تو ایسا ہی ہونا چاہئے ورنہ آنے والے پانچ سالوں میں جمہوریت کا دیوالہ نکل سکتاہے ۔ یہ باتیں الیکشن کا ایک رخ ہے جس میں سب کی امیدیں مثبت ہیں ۔ لیکن اسی الیکشن کا دوسرا رخ بھی ہے جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ بھلے ہی بی جےپی چار سوپار سیٹیں نہ جیت رہی ہو ، بھلے ہی مودی کی ہوا نہ ہو ، بھلے ہی بھارت کی آدھی آبادی مودی کی تائید میں نہ ہو لیکن سنگھ پریوار کے پاس الیکشن میں ہار کر بھی جیتنے کے کئی طریقے ہیں ، 2014 سے لے کر اب تک الیکشن میں استعمال ہونے والے ای وی یم مشینوں کے تعلق سے جو شک و شبہات ہیں وہی دور نہیں ہوئے ہیں ،حالانکہ اس بار ای وی یم کے تعلق سے تنازعہ کم ہواہے اس وجہ سے بار بار ای وی یم میں گڑبڑی کی خبروں کے تعلق سے زیادہ توجہ نہیں دی جاسکتی ہے ۔ پچھلے دنوں پاکستان میں بھی الیکشن ہوئے ہیں ، حالانکہ وہاں پر ای وی یم نہیں بلکہ بیلٹ پیپر کا استعمال کیاگیا تھا، لیکن عمران خان کی پارٹی تحریک انصاف کو شکست دینے کے لئے نواز شریف اور انکے ساتھیوں نے تمام قوانین کی دھجیاں اڑا تے ہوئے ووٹوں کی گنتی مکمل ہونے کے دو دن بعد بھی نتائج کا اعلان نہیں کیا گیا تھا اور وہاں کی الیکشن کمیشن نے اپنی مرضی کے مطابق الیکشن کےنتائج ظاہر کئے ۔ اسی طرح سے اس وقت بھارت میں بھی کم و بیش اعلیٰ افسران ، الیکشن کمیشن ، ای ڈی ، سی بی آئی اور یہاں تک کہ بعض جج بھی سنگھ پریوار سے ہی تعلق رکھتے ہیں تو وہ بھی پاکستان الیکشن کمیشن کے طریقوں پر عمل کرسکتے ہیں ۔ ایسا ممکن ہے ، جب چندی گڑھ میں کھلے عام میئر الیکشن کے انتخابات میں دھاندلی کی گئی تھی تو پارلیمنٹ الیکشن کے رزلٹ میں کیسے ناممکن ہے ؟۔ اب کسی طرح سے نتائج سامنے آجاتے ہیں اور انڈیا الائنس کو اکثریت مل بھی جاتی ہے تو بی جے پی کے لئے یہ بڑی بات نہیں ہوگی کہ وہ یم پی کی خریدار ہی کرنے لگے ، کیونکہ بی جے پی کے اس قدر پیسہ ہے کہ وہ نہ صرف انڈیا کے یم پی کو خریدنے کی طاقت رکھتی ہے بلکہ پڑوسی ملک نیپال ، بنگلہ دیش یا پاکستان کے یم پی کو بھی خرید سکتی ہے ، الیکٹرول بانڈ س سے ہی انہوںنےاربوں روپئے کما ئے ہیں تو کیسے ناممکن ہے کہ وہ الیکشن کے بعد یم پی کو خریدنے سے پیچھے ہٹے ۔ اگر ایک ایک یم پی کو ایک ہزار کروڑ روپئے میں بھی خریدلیتی ہے تو زیادہ سے زیادہ بی جے پی 100 یم پی کی خریدار ی کے لئے ایک لاکھ کروڑ روپئے خرچ کرتی ہے تو اس کے خزانے پر کوئی اثر نہیں پڑیگا ۔ ایسا ممکن بھی ہے کیو نکہ گزشتہ 20 سالوں کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو ملک کی مختلف ریاستوں میں یم ایل ایز کی خریدار ی میں بی جے پی ہی فرسٹ رہی ہے ۔ وزیر اعظم نریندر مودی امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے قریبی رہے ہیں اور انہوںنے اکثر کہاہے کہ وہ اور ڈونالڈ ٹرمپ یکساں سوچ رکھنے والوں میں سے ہیں ، ایسے میں یہ بات بھی ممکن ہے کہ 4 جون کے بعد اگر ین ڈی اے شکست پاجاتی ہے تب بھی مودی اپنے عہدے سے دستبرادر ہونے کے لئے تیارنہ ہوں جس طرح سے ڈونالڈ ٹرمپ نے کیا تھا، ڈونالڈ ٹرمپ نے الیکشن می شکست پانے کے بعد بھی اپنا عہدہ نہیں چھوڑا تھا بعدازاں انہیں زبردستی ہٹایا گیا تھا۔ ان تمام نکات کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتاہے کہ انڈیا الائنس اکثریت حاصل کرنے کے بعد بھی مودی پر گرفت آسانی سے نہیں پاسکتی اوراگرچہ وہ اس میں کامیاب ہوبھی جاتی ہے تو انکے لئے سنگھ پریوار مشکل راہیں کھڑی کرسکتاہے جس کے لئے انڈیا الائنس کو تیار رہنا ہوگا۔