رمضان المبارک اور ہمارا حقیقی محاسبہ
سرفرازعالم، عالم گنج پٹنہ
8825189373
بے شک ہر سال ایک مہینہ کے لئے رمضان المبارک کا پاک مہینہ آتا یے اور ہم مسلمانوں کو بار بار اپنے گیارہ مہینوں کے صبح وشام میں سدھار لانے کی چیتاونی دیکر چلا جاتا ہے۔ وہ تو برا ہو شیطان مردود کا کہ اللہ تعالیٰ کی جکڑن کی وجہ کر ہمیں بہکا نہیں پاتا ہے اور ہم ہیں کہ رمضان میں اپنی عبادت و ریاضت پر اتراتے نہیں تھکتے۔ اللہ تو ہم لوگوں پر بے انتہا مہربان ہے کہ ہر سال ہمیں بونس کے طور پر رمضان المبارک کا مہینہ عطا فرماتا ہے تاکہ ہم اللہ سے ڈرنے والے ہو جائیں لیکن ہم ہر سال فیل ہو جاتے ہیں۔رمضان کے بعد اللہ سے ڈر تو دور، اس کے بھیجے ہوئے قانون کی دھجیاں اڑاتے پھرتے ہیں۔ رمضان گزرنے کے فوراً بعد ہم کیا سے کیا ہو جاتے ہیں اس کا اندازہ ہر کوئی اپنا احتساب کر کے کر سکتا ہے۔ پھر وہی ڈھاک کے تین پات، وہی ٹیڑھی چال جو پہلے تھی اب بھی ہے۔ اللہ سے ایک مہینہ ایسا ڈرے مانو اب گیارہ مہینہ کچھ بھی کرلو سب معاف۔ یہ ہے ہماری اصلیت ورنہ اللہ کا وعدہ ہے کہ جو مومن ہوگا وہ غالب ہوگا اور دونوں جہاں میں عزت والا ہوگا۔ بدقسمتی سے ہمارے اعمال ہمارے مومن نہیں ہونے کی گواہی دیتے ہے۔ جگہ جگہ رمضان کے استقبال کی محفل، مسجدوں میں بھیڑ، ہر جگہ تراویح و تہجد کا اہتمام، قرآن صرف پڑھ کر ختم کرنے کی تڑپ، افطار و سحری کا خوبصورت منظر، جمعتہ الوداع کا انتظار، ہر جمعہ کے لئے نئے کپڑے اور پتہ نہیں کیا کیا۔ چاند رات سے ہی رمضان کے گزرے ہوئے اوقات کو منھ چڑانا شروع ہو جاتا ہے۔ یہی تو اکثر لوگوں کا شیوہ رہ گیا ہے۔ وہ تو اللہ نے ہمیں اسلام کے ایسے قانون سے باندھ رکھا ہے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی رمضان اورعیدین میی سبھوں کو خوشیاں نصیب ہو جاتی ہیں، غریب کے گھر بھی دیوالی ہو جاتی ہے، ورنہ عام دنوں میں کہاں کی خیر خواہی، کیسی مزاج پرسی، سب پر گہن لگ جاتا ہے۔ رمضان کے بعد پھر سب اپنی اپنی دنیا میں گم ہو جاتے ہیں، پھر سے نفسی نفسی کا عالم قائم ہو جاتا ہے۔ رمضان تو آیا تھا ایک مہینہ کی ٹریننگ دیکر بقیہ مہینے کی زندگی میں آپسی محبت و اخوت پیدا کرنے کے لئے مگر ادھر رمضان رخصت ادھر محبت و اخوت بھی غائب۔ کب تک ہم لوگ اس طرح کے مغالطے میں رہیں گے۔ سدھرنے کو تیار نہیں لیکن ماشاءاللہ، سبحان اللہ کی رٹ لگاتے ہوئے گیارہ مہینہ گزر جاتا ہے۔ رشتے ناطے کی پرواہ نہیں، والدین کی خدمت و عزت کی پرواہ نہیں لیکن اللہ سے جنت کی امید مستحکم رہتی ہے۔ ہم بھول گئے ہیں کہ جنت تلوار کے سائے تلے ہے، دشواریوں اور قربانیوں کی راہ سے گزر کر ہی جنت کی بہاریں ملیں گی۔ ہر کوئی اپنا حساب لگا کر دیکھ لے کہ کس کی جنت کتنی نزدیک ہے۔ اخبار اور میگزین میں بھی رمضان المبارک کی خیر و برکت پر خوب بحث ہوتی ہے، تراویح وتہجد پر صفحات بھرے جاتے ہیں، سوشل میڈیا پر فطرہ و زکوٰۃ دینے اور وصول کرنے کی اہمیت پر حدیثیں پیش کی جاتی ہیں، لیکن اس پر کوئی اپنا طاقت صرف نہیں کرنا چاہتا ہے کہ ان تمام کاوشوں کا مقصد اللہ نے کیا بتایا ہے۔تقویٰ، اللہ کا خوف، پرہیزگاری تو دور دور تک دکھائی نہیں پڑتا ہے۔ رمضان کے بعد بقیہ گیارہ مہینے میں لگ بھگ سارے لوگ ایک مصنوعی غلاف میں چھپ جاتے ہیں۔ہم کہیں بھی چھپ جائیں اللہ تو ہم لوگوں کے معاملات کو ترازو پر تولے گا۔سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں کیا صرف ان ظاہری رسومات کی اہمیت تھی، بالکل نہیں۔ انہوں نے اسلام کے تمام احکام کو زندگی میں برت کر دکھایاجس کا آخری مقصد انسان کو انسان سے جوڑنا ہی تھا۔ایک دوسرے کا خیر خواہ بنانا تھا۔ خواب کی دنیا میں رہ کر صرف اللہ سے بہتر کی امید لگانا بیوقوفی ہے۔ ورنہ انبیاء و رسل بھی دنیا میں آرام کی زندگی بسر کر سکتے تھے۔ اب تو لگتا ہے دھیرے دھیرے دین ہمارے بیچ ہی اجنبی ہوتا جا رہا ہے۔ ہم میں کے بیشتر لوگ ظاہری مذہبیت کو دین سمجھ بیٹھے ہیں۔ ہر کوئی اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر اپنا محاسبہ کرے کہ رمضان کے بعد اس کے معاملات کتنے درست ہوئے۔ تو پھر پتہ چلے گا کہ کیا سیکھا ہم نے رمضان سے۔ اسی کو تو درست کرنے کے لئے ہرسال رمضان آتا ہے۔ ہاں کچھ لوگوں کی زندگی میں بدلاؤ ضرور آتا ہوگا، لیکن ایسے لوگ آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔اکثر لوگ معاملات کے کچے ہیں شاید اسی لئے اللہ نے مسلمانوں کی حالت کو الٹ پلٹ کر رکھ دیا ہے۔کیا کوئی یہ ثابت کر سکتا ہے کہ اسلام و ایمان ، قرآن واحادیث، انبیاء و رسل وغیرہ کی تعلیمات کا مقصد دنیا میں تقویٰ کے علاوہ بھی کچھ اور ہے ، ہر گز نہیں۔ایمان کے ساتھ انسان ہی کو جوڑنے کے لئے تو اللہ نے صراط مستقیم بھیجا ہے۔اگر اس مقصد میں ہم کامیاب ہوتے تو اللہ ہمیں آج دنیا بھر میں ذلیل وخوار نہیں کرتا۔ کہاں ہے کھوٹ، کون سا عمل اللہ کو ناراض کر چکا ہے، پتہ نہیں اس کا حساب کون کرے گا۔ کہیں ہم دنیا کمانے کے نشہ میں تو گم نہیں ہو گئے ہیں۔کہیں وہن (دنیا کی ہوس ) تو ہم پر غالب نہیں ہو گئی ہے جس کو ہماری بربادی کی وجہ بتائی گئی ہے۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ جس طرح ہم لوگ رمضان میں غریبوں اور مسکینوں کو کھوج کھوج کر اس کی مدد کرتے پھرتے ہیں ویسا ہی بقیہ مہینوں میں بھی ان کی فکر کریں۔ رمضان میں چھوٹی سے چھوٹی نیکی کو بھی کرنے سے نہیں چوکتے، ویسا ہی بقیہ دنوں میں بھی دوسروں کے کام آنے کی فکر کریں۔ رمضان میں ہی زکوٰۃ فطرہ ادا کرنے کے لئے پریشان رہتے ہیں ویسے ہی عام دنوں میں بھی لوگوں کی مالی مدد کریں۔ اللہ کے خزانہ میں کوئی کمی نہیں ہے، وہ رمضان کے علاوہ دنوں میں بھی 700 گنا تک ثواب دے سکتا ہے، شرط ہے صرف اللہ کی رضا۔اللہ ہمارا مددگار ہو۔
” مسجد تو بھر دی رمضاں میں
برسوں میں متقی بن نہ سکا
مسجد کو خالی کر دی اک شب میں
برسوں میں نمازی بن نہ سکا