ہمیں کو قاتل کہے گی دنیا، ہمارا ہی قتل عام ہوگا صرف عتیق نہیں عدالتی نظام کی قاتل ہے یوگی حکومت
محمد عریف الرحمن (ثمر)
لکھنؤ، اترپردیش
موبائل نمبر: 9125147115
اپنے قاتل کی ذہانت سے پریشان ہوں میں
روز اک موت نئے طرز کی ایجاد کرے
پروین شاکرؔ
24 فروری 2023بروز جمعہ، یہ وہ دن تھا جس دن عتیق احمد اور ان کے خاندان کے ظلم کی انتہا منظر عام پر ہوئی۔ جب راجو پال قتل کیس کے اہم گواہ امیش پال کا قتل بھری بازار میں انجام دیا گیا۔ اس قتل کے تمام ملزم فرار ہو گئے تھے۔ جن کو اترپردیش کے پولیس اور خاص طور پر ایس ٹی ایف کی ٹیم نے کھوجا، اس قتل کے سلسلے میں کئی لوگوں کی گرفتاری بھی ہوئی۔ گرفتار شخص میں زیادہ تر عتیق احمد کے رشتے دار ہی تھے۔ اس قتل کے متعلق ملزمان کی کھوج آج بھی جاری ہے۔ اس کھوج کے دوران ہی 13 اپریل 2023 بروز جمعرات کو عتیق احمد کا چھوٹا بیٹا اسد احمد اور ساتھی غلام یوپی پولیس کے ساتھ انکاؤنٹر میں مارا گیا، قتل سے پہلے ان دونوں پر پانچ پانچ لاکھ روپے کا انعام بھی رکھا گیا تھا۔ پولیس ان کی تلاش میں مصروف تھی۔ اس دوران دونوں جھانسی میں ڈی ایس پی نویندو اور ڈی ایس پی ومل کی قیادت میں یو پی ایس ٹی ایف ٹیم کے ساتھ تصادم میں مارے گئے تھے۔ وہیں یوپی ایس ٹی ایف کے اے ڈی جی امیتابھ یش نے بتایا تھا کہ اسد اور غلام کو زندہ پکڑنے کی کوشش کی گئی تھی لیکن انہوں نے ایس ٹی ایف کی ٹیم پر فائرنگ کردی جس کے بعد جوابی کارروائی میں دونوں مارے گئے۔اس انکاؤنٹر کی تعریف اترپردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے بھی کی تھی۔ وزیر اعلی یوگی نے یو پی ایس ٹی ایف، یوپی کے ڈی جی پی، اسپیشل ڈی جی اور پوری پولیس ٹیم کی تعریف کی تھی۔وہیں ریاست کے نائب وزیر اعلیٰ کیشو پرساد موریہ نے اس پر بیان دیا تھا کہ امن و امان کے معاملے پر ہم کسی صورت سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ ہم ہر مافیا کو مٹی میں ملا کر ہی مریں گے۔انہوں نے کہا تھا کہ مجرم کا ایسا نتیجہ ظاہر کرتا ہے کہ والدین کو خیال رکھنا چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو مجرم نہیں بنائیں گے اور اگر وہ انہیں مجرم نہ بناتے تو عتیق کے بیٹے کا ایسا انجام نہ ہوتا۔وہیں اس کیس میں عتیق احمد کی بیوی شائستہ پروین کو آج بھی کھوجا جا رہا ہے۔ ان دونوں کے پانچ بیٹے ہیں – محمد عمر، محمد علی، اسد احمد اور دو نابالغ بیٹے۔ اس کے پانچ میں سے چار بیٹوں کا مجرمانہ ریکارڈ بھی ہے۔ دو بیٹے محمد عمر اور محمد علی جیل میں بند ہیں۔ جبکہ دو بیٹوں محمد احجام اور محمد ابان جووینائل ہوم پریاگ راج میں ہے۔ وہیں اسد اور غلام کا جسد خاک جھانسی سے پریاگ راج لایا گیا اور 15 اپریل 2023 بروز سنیچر کی صبح دفنایا گیا۔ وہیں عتیق احمد جون 2019سے احمد آباد کی سابرمتی سنٹرل جیل میں بند ہے، 24 فروری سے 15اپریل کے درمیان دو مرتبہ عتیق احمد کو گجرات سے یوپی لایا گیا۔ پہلی دفعہ امیش پال اغوا کیس میں مجرم ٹھہرائے جانے کے بعد سزا کی سنائے جانے کے لئے عتیق احمد کو لایا گیا تھا، اس کیس میں عتیق احمد سمیت 3 افراد کو عمر قید ہوئی تھی، وہیں ان کے بھائی اشرف کو بری کر دیا گیا تھا۔ یوں تو عتیق احمد پر تقریباً 100 کیس درج تھے پر یہ پہلا مرتبہ تھا جب عتیق احمد کو کیسی کیس میں سزا ملی تھی۔ اس سزا کے بعد پھر عتیق کو سابرمتی سنٹرل جیل بھیج دیا گیا تھا۔ اس کے بعد پھر عتیق احمد کو پریاگ راج لایا گیا اور پریاگ راج کی سی جے ایم کورٹ میں امیش پال قتل کیس میں پیش کیا گیا، جہاں عتیق اور اس کے بھائی اشرف کو عدالت نے ریمانڈ پر بھیج دیا۔ زیر حراست عتیق کی طبیعت خراب ہونے کے سبب اسے اسپتال جانچ کے لئے لایا گیا، جس کے بعد اسے پوچھ تاچھ کے لئے واپس لے جایا گیا، لیکن 15 اپریل 2023 یہ وہ دن تھا جس دن صبح میں عتیق کے بیٹے اسد کا جنازہ سپرد خاک ہی نہ ہوا بلکہ رات ہوتے ہوتے خود عتیق احمد ہی کا نام و نشاں ختم ہو گیا۔ سنیچر کو سخت سیکورٹی کے درمیان پریاگ راج کے کمشنری اسپتال کالون میڈیکل کالج میں جانچ کے لئے عتیق اور اس کے بھائی اشرف کو لایا گیا تھا، جہاں لوکیش تیواری، ارون موریہ اور سنی صحافی کی شکل میں موجود تھے ، جب صحافی عتیق اور اشرف سے سوالات پوچھ رہے تھے اس درمیان ایک پسٹل عتیق کے سر پر لگی اور گولی چل گئی۔ تینوں نے پولیس کی سخت سیکورٹی کے درمیان تابڑ توڑ گولیاں چلائی۔ تینوں ملزمان نے عتیق اور اشرف کے قتل کے بعد بھاگنے کی کوشش نہیں کہ بلکہ ’جئے شری رام‘ کا نعرہ لگانے لگ گئے۔ پولیس نے تینوں کو حراست میں لے لیا ہے اور ریاست کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے ایکشن لیتے ہوئے سہ رکنی جوڈیشیل کمیشن کی تشکیل کردی گئی ہے، جسے دو ماہ میں اپنی جانچ رپورٹ پیش کرنی ہوگی۔ وہیں جائے واردات پر موجود 16پولیس اہلکاروں کو معطل بھی کر دیا ہے۔ ریاست بھر میں دفعہ 144نافذ ہو گئی ہے۔
وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ جی کے راج میں یوپی میں قانون راج کا بول بالا کہا جاتا ہے شاید اس کی یہ وجہ بھی ہو سکتی ہے کہ ان کے راج میں عدالت میں فیصلے کم اور سڑکوں پر فیصلے زیادہ ہوتے ہیں۔ یوپی میں انکاؤنٹر کی شرح یوگی راج میں کافی حد تک بڑھی ہے۔ انکاؤنٹر ہو جانے کے بعد کیا فرق پڑتا ہے کہ انکاؤنٹر صحیح تھا یا غلط، کیوں کے انکاؤنٹر کے بعد تو ملزم اور مجرم کے بیچ کا جو طویل فاصلہ ہے جسے عدالتی نظام طے کرتی ہے اس کا کوئی مول نہیں رہا ہے۔ ہمارے ملک میں عدالتی نظام ضروری لمبا ہے لیکن اگر ہماری حکومتیں ہی اس نظام پر آمادہ نہیں ہوں گی تو عوام کسے اس نظام پر آمادہ ہوگی۔ اور اگر یوں ہی قتل و غارت کا کھیل کھیلا جانا ہے تو عدالت کے دروازے ہمیشہ ہمیش کے لئے بند کر دینے چاہئے تھے۔ کیوں کہ اس کی تازہ ترین مثال ہمارے سامنے آئینہ کی طرح نمودار ہوئی ہے۔ جہاں عتیق کو گجرات سے یوپی لانے کے بہانے انکاؤنٹر کی خبریں ہماری میڈیا (چاہے وہ شوشل میڈیا ہو یا ڈیجیٹل میڈیا ہو یا پھر کیوں نہ پرنٹنگ میڈیا ہو)میں چلی وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ عتیق کو پریاگ راج لانے کے دوران کس طرح مار ڈالنا ہے اس کا تو ٹوٹل گراف ہے میڈیا نے پیش کر دیا تھا اور ہماری یوگی حکومت اسے بس اپنے ووٹ بینک کے لئے استعمال کرنے میں لگی ہوئی تھی۔ یوگی حکومت نے اپنے ذور ہر طرز پر دکھا، چاہے وہ بلڈوزر ہو یا لفظوں کا جملہ، ہر طرز سے حکومت کی واہ واہی کروائی۔ یوگی حکومت میں عتیق کا انکاؤنٹر تو ممکن نہ ہو سکا لیکن اس کے بیٹے اسد کو ضرور مار گرایا۔ جس سے حکومت کی تعریفوں کے بل بندھنا شروع ہو گئے۔ اور قانونی راج کا بول بالا ہو گیا۔ لیکن حکومت یہ بھول گئی کے وہ اس طریقے سے عدالتی نظام کو ختم کرنے کا اشارہ دے رہی ہے۔ اور اس کے مثال ہمیں عتیق کے قتل سے صاف ملتی ہے۔ جہاں یوگی حکومت کے ’جسٹس آن دی روڈ‘ کے نظام پر چلتے ہوئے 3 افراد نے سخت سیکورٹی کے درمیان عتیق اور اشرف کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ کیا ان تین لوگوں کو قاتل بنانے کا ذمہ ہماری ریاستی حکومت کو نہیں جاتا ہے جو عوام کے درمیان ’جسٹس آن دی روڈ‘ جیسی مثالیں پیش کیئے جا رہے ہیں۔ ان ملزمان کا قتل کے بعد فخر سے ’جئے شری رام‘ کا نعرہ لگانا یوگی جی کو آئیڈل ماننے کی طرف اشارہ نہیں کرتا ہے۔ بیشک عتیق کے اوپر 100مقدمے درج تھے، بیشک وہ عمر قید کی سزا کاٹ رہا تھا۔ لیکن ہمیں ہمارا عدالتی نظام نہیں معلوم اس ملک نے کتنے ہی مجرموں کو باعزت بری ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ اب اس بات کا فیصلہ کون کرے گا کہ عتیق مجرم تھا یا نہیں اور اگر فیصلہ ہو بھی جاتا ہے کہ تو کیا فرق پڑتا ہے۔ سزا کاٹنے کے لئے یا پھر آزاد گھومنے کے لئے اب تو عتیق اس دنیا میں نہیں رہا۔ اور یہ صرف اور صرف ہماری حکومت کے پالیسی کا ہی تو نتیجہ ہے۔ آج عتیق کا پورا خاندان لگ بھگ تباہ ہو گیا ہے۔ عتیق اور اس کا بیٹا اسد اور بھائی اشرف تو اس دنیا سے جا چکے ہیں تو وہیں اس کے دو بیٹے محمد عمر اور محمد علی جیل میں بند ہیں۔ جبکہ دو بیٹوں محمد احجام اور محمد ابان جووینائل ہوم پریاگ راج میں ہے، بس ایک عتیق کی بیوی شائستہ پروین ہی ہے جو ابھی باہر ہے لیکن وہ بھی امیش پال قتل کیس میں مفرور چل رہی ہیں، زیادہ بعید نہیں ہے کہ ہمیں کل پرسو میں خبر موصول ہو کے شائستہ کا انکاؤنٹر ہو گیا ہے یا پھر کوئی اور شخص ’جئے شری رام‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے اس بھی قتل کر دے، یوں تو دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ہے۔ دہشت گرد ہمیشہ دہشت گرد ہی ہوتا ہے لیکن دہشت گردوں کی نسبت مسلمانوں کی طرف منسوب کرنے والے وزیر اعلیٰ یوگی اور پوری بی جے پی اس دہشت گردی پر کیا کہے گی، کیا یہ دہشت گردی نہیں ہے کہ بھرے بازار سخت سیکورٹی کے مابین بھیس بدل کر گھس جانا اور قتل کر دینا۔ موجودہ وقت میں چل رہی ہماری حکومتوں کی پالیسیوں اگر ایسی ہی رہے تو وہ دن دور نہیں جب ہم اپنے ملک سے خوشحالی ترک کر دیں گے، کیوں کہ ہمارے مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر خود ہی اسٹیج سے گولی مارو کا نعرہ دیتے ہے، ہمارے وزیر اعظم ہی قبرستان اور شمشان کی بات کرتے ہیں یا یوں کہہ لوں کی پوری گورمنٹ نظام ہی فسادات برپا کرنے کی جانب چل رہے ہیں۔ آخر میں میں اپنے شعر کے ساتھ آپ کو حکومت کی پالیسیوں پر سوچنے کیلئے چھوڑ رہا ہوں۔
کھڑا ہوں مجرموں کی بستی میں ملزم بنا ہوا
سوال یہ ہے کہ انصاف کون کرے گا
(نوٹ: مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری ہے