بھارت کی پہلی خاتون پہلوان حمیدہ بانو جسے کوئی مرد ہرا نہیں سکا؛ آج 4 مئی گوگل بھی کر رہا ہے یاد ؛ آخر کون تھیں حمیدہ بانو ؛ پڑھیں تفصیلی رپورٹ
سال 1944 تھا اور وہ جگہ بمبئی کا ایک اسٹیڈیم تھا جو کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ تقریباً 2,00,00 لوگوں کا مجمع جوش و خروش سے تالیاں بجا رہا تھا۔ چند منٹ بعد ایک خاتون پہلوان اور اس دور کے لیجنڈ گونگا پہلوان کے درمیان کستی کا مقابلہ ہونے والا تھا۔ سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا۔ اچانک گونگا پہلوان نے اپنا نام واپس لے لیا۔ منتظمین کا کہنا تھا کہ گونگا پہلوان نے ایسی شرائط رکھی ہیں جنہیں قبول کرنا ناممکن تھا۔ اس نے مزید رقم کا مطالبہ کیا اور میچ کی تیاری کے لیے مزید وقت مانگا۔ میچ کی منسوخی کا اعلان ہوتے ہی ہجوم مشتعل ہوگیا اوراسٹیڈیم میں توڑ پھوڑ شروع کردی۔ پولیس نے کسی طرح معاملہ سنبھال لیا۔ اگلے دن کچھ اخبارات میں شائع ہوا – ‘گونگا پہلوان حمیدہ بانو کے خوف سے پیچھے ہٹ گیا…’ اس دن گونگا پہلوان کا مقابلہ حمیدہ بانو سے ہونا تھا، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ہندوستان کی پہلی خاتون پہلوان ہیں۔ آج (4 مئی) گوگل گوگل ڈوڈل کے ذریعے حمیدہ بانو کو یاد کر رہا ہے۔
کون تھیں حمیدہ بانو ؟
حمیدہ بانو مرزا پور، اتر پردیش میں پیدا ہوئیں اور انہیں شروع سے ہی کُستی سے دلچسپی تھی۔ اس دور میں کستی صرف مردوں تک محدود تھی۔ خواتین میدان میں اترنے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھیں۔ حمیدہ نے اپنے گھر والوں کو کُستی کے بارے میں بتایا تو گھر والوں نے اسے ڈانٹا۔ حمیدہ نے بغاوت کی اور علی گڑھ آگئی۔ یہاں سلام پہلوان سے کستی کے کرتب سیکھے اور پھر مقابلہ شروع کیا۔
مہیشور دیال 1987 میں شائع ہونے والی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ چند ہی سالوں میں حمیدہ بانو اتر پردیش سے پنجاب تک مشہور ہوگئیں۔ وہ بالکل مرد پہلوانوں کی طرح لڑتی تھی۔ شروع میں وہ چھوٹے چھوٹے میچ لڑتی رہی لیکن وہ جو حاصل کرنا چاہتی تھی وہ ان میچوں کے ذریعے حاصل نہ ہوسکی۔
حمیدہ بانو 1954 میں اس وقت سرخیوں میں آئیں جب انہوں نے ایک عجیب اعلان کیا۔ بانو نے اعلان کیا کہ وہ اس مرد پہلوان سے شادی کریں گی جو اسے کستی میں شکست دے گا۔ اس اعلان کے بعد تمام پہلوانوں نے ان کا چیلنج قبول کر لیا لیکن حمیدہ بانو کے سامنے ٹھہر نہ سکے۔ پہلا مقابلہ پٹیالہ کے کستی چیمپئن اور دوسرا کلکتہ کے چیمپئن کے خلاف تھا۔ حمیدہ نے ان دونوں کو شکست دی۔
بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق اسی سال حمیدہ بانو اپنے تیسرے میچ کے لیے وڈوڈرا (اس وقت بڑودہ کہلاتا تھا) پہنچ گئیں۔ شہر کے مختلف مقامات پر ان کے پوسٹر اور بینرز آویزاں کیے گئے تھے۔ حمیدہ کا مقابلہ چھوٹے گاما پہلوان سے ہونا تھا، جو کافی مشہور تھا اور مہاراجہ آف بڑودہ کی حفاظت میں تھا، لیکن آخری وقت میں چھوٹے گاما پہلوان نے یہ کہہ کر میچ سے پیچھے ہٹ گئے کہ وہ کسی خاتون سے کشتی نہیں لڑیں گے۔ اس کے بعد حمیدہ کا سامنا بابا پہلوان سے ہوا۔
اے پی (ایسوسی ایٹڈ پریس) کی 3 مئی 1954 کی رپورٹ کے مطابق حمیدہ بانو اور بابا پہلوان کے درمیان میچ 1 منٹ 34 سیکنڈ تک جاری رہا اور حمیدہ نے بابا کو شکست دی۔ اس کے ساتھ ہی ریفری نے اعلان کیا کہ ایسا کوئی مرد پہلوان نہیں ہے جو حمیدہ کو شکست دے کر اس سے شادی کر سکے۔
بی بی سی کے مطابق جب حمیدہ بانو 1954 میں بڑودہ پہنچیں، تب تک وہ کم از کم 300 میچ جیت چکی تھیں اور انہیں ‘علی گڑھ کا ایمیزون’ کہا جاتا تھا۔ ہر روز اخبارات میں حمیدہ بانو کے قد، وزن، خوراک سے متعلق خبریں شائع ہوتی تھیں۔ حمیدہ بانو کا وزن 108 کلو اور قد 5 فٹ 3 انچ تھا۔ ان کی روزانہ کی خوراک میں 5.6 لیٹر دودھ، 2.8 لیٹر سوپ، 1.5 لیٹر پھلوں کا رس، تقریباً 1 کلو مٹن، بادام، آدھا کلو گھی اور بریانی کی دو پلیٹیں شامل تھیں۔
رونوجوئے سین اپنی کتاب ’نیشن ایٹ پلے: اے ہسٹری آف اسپورٹ ان انڈیا‘ میں لکھتے ہیں کہ اس وقت کا معاشرہ جاگیردارانہ تھا اور کسی خاتون پہلوان کو اکھاڑے میں مرد پہلوان کو شکست دینے کو برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ اس لیے حمیدہ بانو کو کئی مواقع پر مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ پونے میں حمیدہ اور رام چندر سالونکے کے درمیان میچ ہونا تھا، لیکن ریسلنگ فیڈریشن اٹل رہی اور میچ منسوخ کرنا پڑا۔ ایک اور موقع پر حمیدہ بانو نے ایک مرد پہلوان کو شکست دی تو لوگوں نے پتھراؤ شروع کر دیا اور پولیس نے اسے کسی طرح بحفاظت باہر نکال لیا۔
مہاراشٹر میں ایک طرح سے حمیدہ بانو پر غیر اعلانیہ پابندی لگا دی گئی۔ رنوجوئے سین اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ حمیدہ بانو نے اس بارے میں مہاراشٹر کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ مرار جی دیسائی کو تحریری شکایت بھی کی تھی۔ دیسائی نے جواب دیا کہ چونکہ وہ ایک خاتون تھیں، اس لیے ان کا مقابلہ منسوخ نہیں کیا جا سکتا، لیکن منتظمین شکایت کر رہے تھے کہ بانو کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لیے ڈمی امیدوار کھڑے کیے جا رہے ہیں۔
1954 میں ممبئی میں حمیدہ بانو اور روسی پہلوان ویرا چسٹیلن کے درمیان میچ ہوا۔ ویرا کو روس کی ‘مادہ ریچھ’ کہا جاتا تھا لیکن وہ حمیدہ کے سامنے ایک منٹ بھی نہیں ٹھہر سکی۔ حمیدہ نے ویرا کو ایک منٹ سے بھی کم وقت میں شکست دے دی۔ اسی سال انہوں نے ہندوستان سے باہر یورپ جانے اور کشتی میں حصہ لینے کا اعلان کیا۔
حمیدہ کے کوچ سلام پہلوان کو ریسلنگ کے لیے یورپ جانے کا خیال پسند نہیں آیا۔ دونوں نے شادی کر لی تھی اور پھر ممبئی کے قریب کلیان میں ڈیری کا کاروبار شروع کیا۔ تاہم حمیدہ نے یورپ جا کر ریسلنگ کا اصرار ترک نہیں کیا۔ بی بی سی نے حمیدہ بانو کے پوتے فیروز شیخ کے حوالے سے لکھا ہے کہ سلام پہلوان نے حمیدہ بانو کو اتنا مارا کہ ان کا ہاتھ ٹوٹ گیا۔ اسے ٹانگ میں بھی شدید چوٹ آئی جس کے بعد وہ کئی سال تک چھڑی کی مدد سے چلتی رہی۔
کچھ سالوں کے بعد سلام پہلوان علی گڑھ واپس آگئے اور حمیدہ بانو کلیان میں رہیں اور دودھ کا کاروبار جاری رکھا۔ بعد کے دنوں میں وہ سڑک کے کنارے کھانے پینے کی اشیاء بھی بیچتی رہی۔ ان کا انتقال 1986 میں گمنامی میں ہوا۔