حکیم الامت،مفکر اسلام:علامہ محمد اقبال
ازقلم۔نکہت انجم ناظم الدین
مسلمانوں کے شاندارماضی،دلیری،ہمت،عظمت،جرأت،تہذیب وتمدن، کی یاد دہانی بارہا حکیم الامت،مفکر اسلام علامہ محمد اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعے کروائی ہے۔بارہا نوجوانان قوم سے پردرد اور پراثر خطاب کیاہے۔اپنے قومی ورثے کو کھودینے پر سخت افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ
کبھي اے نوجواں مسلم! تدبر بھي کيا تو نے
وہ کيا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا
تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوش محبت ميں
کچل ڈالا تھا جس نے پائوں ميں تاج سر دارا
تمدن آفريں خلاق آئين جہاں داري
وہ صحرائے عرب يعني شتربانوں کا گہوارا
سماں ‘الفقر فخري’ کا رہا شان امارت ميں
”بآب و رنگ و خال و خط چہ حاجت روے زيبا را”
گدائي ميں بھي وہ اللہ والے تھے غيور اتنے
کہ منعم کو گدا کے ڈر سے بخشش کا نہ تھا يارا
غرض ميں کيا کہوں تجھ سے کہ وہ صحرا نشيں کيا تھے
جہاں گير و جہاں دار و جہاں بان و جہاں آرا
اگر چاہوں تو نقشہ کھينچ کر الفاظ ميں رکھ دوں
مگر تيرے تخيل سے فزوں تر ہے وہ نظارا
تجھے آبا سے اپنے کوئي نسبت ہو نہيں سکتي
کہ تو گفتار وہ کردار ، تو ثابت وہ سےارا
گنوا دي ہم نے جو اسلاف سے ميراث پائي تھي
ثريا سے زميں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
اقبال نے اپنی شاعری اور فلسفے سے قوم کو فکری اور عملی پیغام دیا ہے۔انھوں نے اپنی شاعری کے ذریعے عالم اسلام کے لئے مسائل و مصائب کی تندی میں بھی ناصرف اجتماعی شعور بیدار کیا بلکہ ذہنی انقلاب بھی برپا کیا۔ اقبال کی شاعری فکر و عمل سے بھری ہوئی ہے جو نا صرف مسلمانان ہند بلکہ تمام عالم اسلام کو میدان عمل سے روشناس کرانے کے لیے کافی ہے۔ بلاشبہ اقبال ایک عظیم شاعر اور فلسفی تھے۔ انہوں نے ایک باشعورمسلمان کی حیثیت سے قوم کی رہنمائی کی۔ قوم کو راستہ دکھایا قوم کو مذہب سے قریب کیا ۔اللہ کے دیے گئے احکامات کی پابندی اللہ کے رسول سے عشق کوافکار روحانی کا اساس قرار دیا۔
شیخ محمد اقبال ۹ نومبر ۱۸۷۷ کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ اقبال کے والد کا نام شیخ نور محمد تھا۔ شیخ نور محمد صوفیا کی صحبت میں رہنا پسند کرتے تھے اور ٹوپیوں کا کاروبار کیا کرتے تھے۔ صوفیاکی صحبت میں رہنے کی وجہ سےان میں معرفت کا ذوق پیدا ہوا جس کی وجہ سےلوگ انہیں’ ان پڑھ فلسفی’ کہنے لگے۔
علامہ اقبال کے اجداد سترہویں صدی میں مشرف بہ اسلام ہوئے تھے ۔ان کے خاندان کا تعلق کشمیر سے تھا اور یہ خاندان برہمنوں سے منسلک تھا۔ ایک صدی کے بعد انہوں نے اپنا مقام تبدیل کیا اور پھر پنجاب کےسرسبز وشاداب علاقوں میں سکونت اختیار کی۔ اقبال کی والدہ صرف ناظرہ قرآن پڑھی ہوئی تھیں لیکن وہ بہت متقی و پرہیزگار خاتون تھیں۔ اسی طرح ان کے والد نور محمد شیخ کی بھی مذہب سے گہری وابستگی تھی۔ اس وقت عام روایت کے مطابق علامہ اقبال کے تعلیم مکتب سے شروع ہوئی۔ اقبال کی شروعاتی تعلیم ہی مولوی سید میر حسن جیسے مایہ ناز عالم کی سرپرستی میں ہوئی۔وہ صرف درس وتدریس کے پیشے میں ہی مہارت نہیں رکھتے تھے بلکہ عربی اور فارسی میں بھی ماہر تھے۔ مولوی میر حسن فن شاعری سے بھی گہری واقفیت رکھتے تھے اور بہت مذہبی شخصیت کے مالک تھے۔میر حسن کی سرپرستی میں اقبال نے بہت جلد عربی اور فارسی ناصرف سیکھ لی بلکہ ان پر مہارت بھی حاصل کرلی۔
اقبال کو یہ تمام اوصاف استاد محترم سے ملے۔ میر حسن کے کہنے کے مطابق اقبال کو اسکاچ مشن اسکول میں داخل کیا گیا۔ اقبال اپنےشائستہ عادت و اطوار اور علم سے گہری دلچسپی کے بدولت ہردلعزیز طالبعلم کی حیثیت اختیار کر گئے ۔۱۸۹۲ میں اقبال نے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور کالج میں داخلہ لیا۔ اسی سال ان کی شادی بھی کردی گئی۔ کالج کی پڑھائی کے دوران اقبال نے شاعری میں دلچسپی لینا شروع کی۔ اقبال کا میلان طبع بھی شاعری کی طرف تھا اور وہ مکتب کے زمانے سے ہی روزمرہ کے واقعات کو نظم میں لکھ لیا کرتے تھے اسلئے انہوں نے کالج کے دوران ہی مشاعروں میں شرکت شروع کی۔ اقبال اپنی غزلوں پر داغ دہلوی سے اصلاح لیا کرتے تھے۔داغ دہلوی اور ارشد گورگانی نے ابتدا ہی میں اقبال کے شہرہ آفاق شاعر بننے کی پیشن گوئی کردی تھی۔ ارشد گرگانوی اقبال کے کم عمر میں کہے گئے اس شعر پر بہت حیران ہوئے اور بہت تعریف کی تھی۔
موتی سمجھ کے شان کریمی نے چن لیے
قطرے جو تھےمیرے عرق انفعال کے
اقبال کو شہرت ملنے کے بعد داغ فخر سے کہا کرتے تھے کہ اقبال اپنی شاعری پر ان سے اصلاح لیا کرتے تھے اور اقبال بھی داغ دہلوی کے شاگرد ہونے پر فخر محسوس کرتے تھے۔ ۱۹۰۵ میں داغ دہلوی کی وفات پر اقبال نے مرثیہ لکھا۔جس میں ان سے عقیدت کا بھرپور اظہار کیا ہے۔
۲۲ سال کی عمر میں اقبال اعلی تعلیم کے حصول کے لیے لاہور گئے ۱۸۹۷میں گورنمنٹ کالج میں داخلہ لے کر انگریزی اور عربی میں امتیاز حاصل کیا اور دو طلائی تمغوں سے سرفراز کیے گئے۔ ۱۸۹۹ میں اقبال نے گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے( فلسفہ) تیسرے درجے میں پاس کیا۔ یہاں اقبال کو فلسفے کے پروفیسر پروفیسر آرنلڈ کی شاگردی میں رہنے کا موقع ملا جن سے اقبال نےسب سے زیادہ استفادہ حاصل کیا۔ پروفیسر آرنلڈ انڈین ایجوکیشنل سروس کے بہترین اساتذہ میں سے تھے جنہیں بعد میں علی گڑھ کالج، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پڑھانے کا بھی شرف حاصل رہا ہے۔ ارشد گورگانی کی طرح أرنلڈ کو بھی بہت جلد اقبال کی صلاحیتوں کا اندازہ ہو گیا تھا ۔اقبال کی زندگی اور فلسفہ میں پروفیسر آرنلڈ کا بہت بڑا کردار رہا ہے پروفیسر آرنلڈ کی یاد میں اقبال نے ‘نالۀفراق’ نظم لکھی۔
ایم اے کی ڈگری کے حصول کے بعد اقبال اورینٹل کالج لاہور میں عربی کے میکلورڈریڈر بنے۔ اس کے بعد اقبال اپنی صلاحیتوں کی بنا پر گورنمنٹ کالج لاہور میں انگریزی کے پروفیسر مقرر ہوئے ۔اسی کے ساتھ ساتھ کچھ عرصے تک انہوں نے لاہور کے اسلامیہ کالج میں بھی پڑھایا۔ اقبال نے پنجاب سول سروس کے امتحان میں شرکت کی کوشش کی لیکن وہ کچھ طبی وجوہات کی بنا پر غیر موزوں قرار دیے گئے ۔ درس و تدریس سے اقبال ۶ سال تک وابستہ رہے اس دوران اقبال کو اپنے پسندیدہ مضامین کثرت سے مطالعہ کرنے کا وقت ملا۔ اقبال نے عقلیت پسندی اور تصوف میں غیر معمولی دلچسپی کا مظاہرہ کیا۔ان کے تصورات اور خیالات میں وسعت پیدا ہوئی اور فکر و عمل میں گہرائی و گیرائی پیدا ہوئی۔ یہی وہ وقت تھا جب اقبال ایک منفرد اورابھرتے ہوئے شاعر کی حیثیت سے پور ےہندوستان میں متعارف ہوئے۔
۱۸۹۹سے۱۹۰۵تک اقبال کی شاعری کی بنیادی خصوصیات تصوف ،رومانیت اورحب الوطنی رہی ہے۔ اس تمام وقت میں ان کی لکھی شاعری میں تصوف ،رومانیت اور حب الوطنی کی جھلکیاں صاف طور پر دیکھنے کو ملتی ہیں۔گل پژمردہ، ایک آرزو ،ہمالہ ، نیا شوالہ اور ترانۀ ہندی اس کی مثالیں ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ۱۹۰۴ میں انجمن کے جلسے میں جب اقبال نے’ تصویر درد’ پڑھی تو سامعین پر رقت طاری ہوگئی۔ یہی وہ نظم ہے جس میں اقبال ہم وطنوں کی روبہ انحطاط حالت پر فکر مند نظر أتے ہیں اور انہیں متنبہ بھی کررہے ہیں۔اس کے اشعار مندرجہ ذیل ہیں۔
وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے
تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں
دیکھ اس کو جو کچھ ہو رہا ہے ،ہونے والا ہے
دھرا کیا ہے بھلا عہد کہن کی داستانوں میں
یہ خاموشی کہاں تک لذت فریاد پیدا کر
زمیں پر تو ہو اور تیری صدا ہو آسمانوں میں
نا سمجھوگے تو مٹ جاؤ گےاے ہندوستاں والو
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
تصویر درد کے اشعار کو پسند کر کے حالی نے اقبال کو ۱۰ روپے کا نوٹ بطور انعام دیا تھا۔
۱۸۹۰ اور ۱۹۰۵ کے دوران لکھی جانے والی اقبال کی نظمیں انجمن حمایت اسلام کے جلسوں میں پڑھی گئی تھیں جو ماہنامہ’ مخزن ‘میں شائع ہوئیں ماہنامہ مخزن پنجاب کا مایہ ناز رسالہ سمجھا جاتا تھا۔ پروفیسر آرنلڈ نے اقبال کو انگلستان کا سفر کرنے کا مشورہ دیا۔ اقبال استاد کا مشورہ قبول کرتے ہوئے اگست ۱۹۲۵کو انگلستان روانہ ہوئے۔ یوروپ میں اقبال نے تقریبا تین سال تک قیام کیا ۔ٹرنٹی کالج کیمبرج میں بھی اقبال کو پروفیسر اے جی براؤن اور اراے نکلس جیسے شفیق اساتذہ ملے۔ کیمبرج سے ڈگری کے حصول کے بعد وہ جرمنی چلے گئے اور میونخ یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔’ ایران میں مابعد الطبیعات کا ارتقاء’ اس موضوع پر مقالہ لکھا ۔اس مقالے پر انہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض کی گئی۔ساتھ ہی انھوں نے قانون کا کورس بھی مکمل کیا۔ ۱۹۰۸ میں اقبال بیرسٹر بن گئے۔ یورپ اس وقت دنیا کا سب سے اہم اور طاقتور براعظم تھا ۔یہاں اقبال نے جو کچھ دیکھا اس کے گہرے نقوش ان کے ذہن میں رہے ہیں۔ اس دوران اقبال کو یورپ کی طرز زندگی سے آگہی حاصل ہوئی۔ اقبال کے فلسفہ خودی پر فارسی شعر مولانا روم کے واضح اثرات نظر آتے ہیں جاوید نامہ میں اقبال نے رومی کے ساتھ افلاک کی سیر کی ہے۔ لاہور واپس آ کر اقبال وکالت کرنے لگے ساتھ ہی انہوں نے گورنمنٹ کالج میں درس و تدریس کا سلسلہ بھی شروع کیا ۔اقبال نےاتنے ہی مقدموں کی پیروی کی جتنی آمدنی ان کی ضروریات زندگی کے لیے کافی تھی۔پیشہ درس و تدریس کو وہ زیادہ وقت نہیں دے پاتے تھے اس لئے انہوں نے اپنا استعفیٰ دے دیا۔علی گڑھ یونیورسٹی سے پروفیسر کی حیثیت سے ملازمت کی پیشکش کی گئی اس پر بھی انہوں نے معذرت کرلی۔یوروپ سے واپسی پر اقبال نے اجتماعی احساسات و خیالات کی وہ ترجمانی کی ہے کہ وہ’ شاعر اسلام’ کہلانے لگے۔ ہندوستانی مسلمانوں کی امید کا مرکز اقبال کی ذات اور ان کی شاعری تھی۔
اقبال کو بحیثیت شاعر اور مفکر کے بے پناہ شہرت حاصل ہوئی۔ انھوں نے اردو اور فارسی پر مشتمل ۱۱ دیوان شائع کیے۔ اقبال ایک حساس شاعر اور مفکر ہی نہیں دردمند مسلمان بھی تھے۔افغانستان سے واپسی کے بعد اقبال کی صحت گرنے لگی تھی ۔۱۹۲۴ میں بھی وہ شدید بیمار ہوئے تھے۔ گردوں کا عارضہ لاحق ہو گیا تھا لیکن دہلی کے نابینا حکیم سے علاج کروایا جس سےبہت افاقہ ہوا اور وہ روبہ صحت ہوگئے ۔دس سال تو صحت بحال رہی لیکن دس سال کے بعد گلے کی تکلیف شروع ہوئی گلے کا برقی علاج ہوا لیکن کچھ افاقہ نا ہوا۔ ۱۹۳۵ میں عزیز بیوی کی رحلت کی وجہ سے اقبال خود کو بہت تنہا محسوس کرنے لگے ۔ ہر وقت غمزدہ اور ملول رہنے لگے جس کی وجہ سے گردوں کا مرض ازسر نو ابھرنے لگا ۔آنکھ میں بھی تکلیف شروع ہوئی کسی حد تک بینائی سے محروم ہو گئے۔ان تمام تکالیف کے باوجوداقبال کا ملت کے لیے فکرمندی کا وہی عالم تھا۔ اسلام کے مستقبل کے بارے میں ہمہ وقت فکر مند رہتے تھے۔
مارچ ۱۹۳۸کے آخر میں بیماری شدت اختیار کر گئی۔ قلب کمزور ہوگیا ۔بہترین طبی امداد اور دیکھ بھال کے باوجود بھی ۲۱ اپریل ۱۹۳۸ کو اقبال مالک حقیقی سے جا ملے ۔علامہ اقبال کے انتقال کی خبر لاہور ریڈیو اسٹیشن سے نشر کی گئی تو لوگوں کا ہجوم ان کی رہائش گاہ کے اردگرد جمع ہوگیا ۔۶۰ ہزار افراد نے جنازے میں شرکت کی ۔بادشاہی مسجد کے سائے میں ان کا جسد خاکی سپردخاک کیا گیا۔ اقبال کی رحلت کے آٹھ سال بعد ان کی قبر پر مقبرہ تعمیر کیا گیا۔ مقبرے کی پیشانی پر اقبال کا قطعہ کندہ ہے۔
نہ افغانیم ونے ترک و تتاریم
علامہ اقبال نے اپنی موت سے کچھ وقت پہلے ایک قطعہ کہا تھا کہ
سرود رفتہ باز آید کہ نہ أید
نسیمے از حجاز آید کہ نہ أید
آمد روزگار ےاین فقیر
دگر دانائے راز آید کہ نہ آید
اقبال نے جو فلسفہ حیات قوموں کے لئے پیش کیا ہے اس پر عمل پیرا ہو کر قومیں معراج کو پہنچ سکتی ہیں۔