مضامین
دوبارہ زندہ کیے جانے کے تصور کو عام کرنے سے بڑی تبدیلی ممکن
بلڈھانہ مہاراشٹر
9096331543
اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہترین ساخت میں تخلیق بخشی اور اس کی خدمت کے لیے ساری دنیا کو مسخر کردیا، عقل دے کر سوچنے سمجھنے اور فیصلہ کرنے کی قوت بخشی تاکہ وہ اپنے اچھے برے کی تمیز کرسکے، اتنا ہی نہیں بلکہ انسان کو زندگی گزارنے کا طریقہ سلیقہ سکھانے کے لیے اپنے معصوم پسندیدہ برگزیدہ پیغمبروں کو مبعوث فرمایا کہ انسان کو دیے گیے اختیارات کی قوت کی بنا پر کئی وہ شیطان کی طرح سرکش نہ ہوجائیں اور تکبر کے نتیجے میں اپنی دنیا و آخرت کو برباد نہ کر بیٹھے کہیں وہ دنیا کی رنگینیوں میں ڈوب کر اپنے خلیق رب العالمین کو ہی نہ بھول بیٹھے اس لیے انبیاء علیہم السلام کے ذریعے انسان کی رھبری فرمائیں۔
لیکن جن لوگوں نے اللہ کے علاوہ معبود بنالیا بت پرستی میں مبتلا ہوگئیں اور اپنے پیدا کرنے والے حقیقی رب اللہ کو بھول بیٹھے من چاہیے طریقوں پر اور خود ساختہ رسم و رواجوں میں ملوث ہوگئے دنیا کی زندگی کو سب کچھ سمجھ کر حرام و حلال کے فرق کو ختم کردیا، شیطان کی پیروی کرتے ہوئے نفسانی خواہشات کی تکمیل کو ہی سب کچھ سمجھ بیٹھے زندگی کا مقصد صرف دنیا سے فائدہ حاصل کرنا سمجھ لیا تو اس کے پیچھے ایک سوچ کی عکاسی ہوتی ہے کہ زندگی میں ہی سب کچھ کرلو موت کے بعد کوئی زندگی نہیں ہے! کوئی حساب کتاب نہیں! کوئی پوچھنے والا نہیں! چاہے دنیا میں جو من چاہے کرلو ایک بار موت آگئی تو پھر خواہشات کو پورا کرنے کا موقع نہیں ملے گا چاہے وہ فعل حرام ہو، اپنے دل کی تسکین کی خاطر انسانی اقدار کا جنازہ کیوں نہ اٹھ جائیں ، دنیا میں بڑا بننے کی خواہش میں کسی بےقصور کی جان کو نقصان پہنچا کر دولت لوٹنا کیوں نہ ہو ، کسی بنت حوا کی عزت کے ساتھ کھیلنا اور اسکی آبرو کو تار تار کرنا کیوں نہ ہو، دھوکہ دے کر کسی زمین کو ہڑپنا کیوں نہ ہو ، کسی یتیم کا مال کھا جانا کیوں نہ ہو ، کسی بیوہ کی عزت و آبرو کو خراب کرنا کیوں نا ہو، چند پیسوں کیلئے کسی معصوم جان کا اگوہ کیوں نہ ہو ، ظلم و جبر قتل و غارتگری کے ذریعے حکومت پر قابض ہونا کیوں نہ ہو، عوامی فلاحی اداروں کے پیسوں کا غبن کیوں نہ ہو، سرکاری تنخواہوں کے باوجود عوام الناس سے رشوت لینا کیوں نہ ہو یہ تمام کام اگر کوئی انسان انجام دیتا ہے تو یوں سمجھئے کہ اسے آخرت کا خوف نہیں ہے یا اس کا عقیدہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ اٹھائے جانے پر نہیں ہے۔ یا سمجھیے کہ وہ خدا کے سامنے پیش ہونے کے تصور سے ناواقف ہے۔
مسلمانوں کے لیے بنیادی عقائد میں سے یہ بات بھی ہے کہ دوبارہ زندہ اٹھائے جانے پر ان کا عقیدہ ہے اور یہی فکر انسان کو دنیا میں ہر عمل کرنے سے پہلے سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ کل خدا کے سامنے پیش ہونا ہے اگر آج دنیا کے تھوڑے سے نفع کے لیے ، یا دل کی خواہشات کی تکمیل کے لیے، یا بیوی بچوں کی زندگی میں سکون لانے کے لیے حرام و حلال کی تمیز کے فرق کو بھول جاتا ہے تو موت کے بعد آنے والی لامحدود زندگی میں اس کا حشر بہت ہی خطرناک ہوگا۔ یہی فکر اور شعور مسلمان کو حرام سے بچنے کے لیے کافی ہے خدا کا ڈر و خوف اور آخرت کا حساب کتاب جہاں کوئی کسے کے کچھ کام نا آئیں گا۔
دنیا کے ساری خلقت اللہ تعالیٰ کی عیال ہے ایمان والوں اور غیر مسلموں میں فرق یہ ہے کہ ایمان والے اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کرتے ہیں اور اسکے رسول ﷺ کی پیروی کرتے ہیں لیکن غیر مسلموں نے شیطان کی پیروی کرتے ہوئے اللہ کے علاوہ معبود بنا لیے ان لوگوں نے کفر کیا وہ خدا کی وحدانیت اور اسلام کی حقیقت سے محروم ہوگئیں ہے۔
اللہ تعالیٰ سورۃ ھود آیت نمبر 7 میں ارشاد فرماتا ہے
اور وہی ہے جس نے تمام آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا ۔ جبکہ اس کا عرش پانی پر تھا ۔ ( ٥ ) تاکہ تمہیں آزمائے کہ عمل کے اعتبار سے تم میں کون زیادہ اچھا ہے ۔ ( ٦ ) اور اگر تم ( لوگوں سے ) یہ کہو کہ تمہیں مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیا جائے گا تو جن لوگوں نے کفر اپنا لیا ہے ، وہ یہ کہیں گے کہ یہ کھلے جادو کے سوا کچھ نہیں ہے ۔ ( ٧ )
کافر لوگ کل بھی مرنے کے بعد زندہ اٹھائے جانے کا انکار کرتے رہے ہیں اور اب بھی وہ اپنے عقیدہ پر قائم ہے کہ مرنے کے بعد جسم جل کر خاک میں مل جائے گا، انکے جسم کی راکھ ہوا میں بکھر جائیں گی، لیکن وہ دراصل حقیقت سے بے خبر ہے۔
اللہ تعالیٰ سورۃ الحج میں ارشاد فرماتا ہے
لوگو! اگر تمہیں مرنے کے بعد جی اٹھنے میں شک ہے تو سوچو ہم نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا پھر نطفہ سے پھر خون بستہ سے پھر گوشت کے لوتھڑے سے جو صورت دیا گیا تھا اور وہ بے نقشہ تھا یہ ہم تم پر ظاہر کر دیتے ہیں اور ہم جسے چاہیں ایک ٹھہرائے ہوئے وقت تک رحم مادر میں رکھتے ہیں پھر تمہیں بچپن کی حالت میں دنیا میں لاتے ہیں پھر تاکہ تم اپنی پوری جوانی کو پہنچو ، تم میں سے بعض تو وہ ہیں جو فوت کر لئے جاتے ہیں اور بعض بے غرض عمر کی طرف پھر سے لوٹا دئیے جاتے ہیں کہ وہ ایک چیز سے باخبر ہونے کے بعد پھر بے خبر ہو جائے تو دیکھتا ہے کہ زمین ( بنجر اور ) خشک ہے پھر جب ہم اس پر بارشیں برساتے ہیں تو وہ ابھرتی ہے اور پھولتی ہے اور ہر قسم کی رونق دار نباتات اگاتی ہے۔ (آیت نمبر ۵)
یہ اس لئے کہ اللہ ہی حق ہے اور وہی مردوں کو جلاتا ہے اور وہ ہر ہرچیز پر قدرت رکھنے والا ہے ۔ (آیت نمبر ۶)
کافر لوگ اس بات س ےانکار کرتے ہیں کہ انھیں دوبار زندہ کیا جائے گا اور آج کے جدید معاشرے کے سیکولر لبرل نظریات رکھنے والی مغربی تہذیب کی دلدادہ عوام بھی اسی تصور کے ساتھ دنیا میں تمام عیش و آرام عیاشیوں نفسانی خواہشات کی تکمیل کے لیے تمام انسانی اقدار اور حرام و حلال کی تمیز کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اخلاقی حدود اور فطرت کے خلاف کام کر رہی ہے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا کی زندگی ہی سب کچھ ہے کیونکہ ان کے پاس اپنے پیدا کرنے والے حقیقی رب کا تصور نہیں ہے جو دین اسلام کی صورت میں ہمارے پاس موجود ہے۔ وہ ہر خواہش نفس کو اسی دنیا میں پورا کرنا چاہتے ہیں کیونکہ موت کے بعد دوبارہ زندہ کیے جانے پر انکا یقین نہیں ہے۔ دراصل وہ گمراہی کی عمیق گہرائیوں میں گرے ہوئے ہے یا پھر خدا کی تمام نشانیوں کے باوجود جان بوجھ کر آنکھیں بند کرکے غفلت کی نیند مین پڑے ہوئے ہے۔ انہیں اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ جب انسان کو اللہ تعالیٰ نے عدم سے وجود بخشا اور دنیا پیدا فرمایا اس سے پہلے کیا انہیں اپنے آپ کی کوئی خبر تھی یا انھوں نے اللہ سے دنیا میں پیدا ہونے کی درخواست کی تھی یا کسی اور سے جب اللہ تعالیٰ نے تمہیں انسانوں کو پہلی مرتبہ پیدا فرمایا تو کیا وہ اللہ تعالیٰ تمہارے مرنے کے بعد تمہیں اسی شکل کے ساتھ دوبارہ پیدا نہیں کرسکتا ہے ضرور بے شک اللہ تعالیٰ اس پر قادر ہے اور کل قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تمام انسانوں کو آدم علیہ السلام سے لے کر دنیا کے آخری شخص تک کے انسانوں میدان محشر میں جمع فرمائے گا اور ہر کسی کو اپنی زندگی کا حساب دینا ہوگا۔
غیر مسلموں میں اس تصور کو عام کرنے کیلئے اسلام کی دعوت کو کھلے ذہن کے ساتھ پیش کرنے کی ضرورت ہے چاہے کوئی بات کو سنے نہ سنے لیکن کلمہ حق کو پیش کرنا ہماری ذمہ داری ہے اور امانت بھی ہے نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے میری طرف سے پہنچاؤ گر ایک آیت کیوں نہ ہو، ہمارے پاس اسلام کی دولت ہے اور اسی میں دنیا کے تمام انسانوں کی کامیابی ہے اور معاشرے کو جرائم، ظلم و ناانصافی ، جبر تشدد، قتل و غارتگری ، حقوق کی پامالیوں ، عدم مساوات، ان تمام انسانیت سوز جرائم سے بچانے کے لیے اسلام کے دعوت کو عام کرنا ہوگا۔
آج ہمارے پاس بہترین مواقع موجود ہے سوشل میڈیا کے ذریعے ہم اسلام کا پرچار کرسکتے ہیں۔ اسی طرح نکڑ چوک چوراہوں پر انسانوں کو اپنے حقیقی رب کا تعارف پیش کرسکتے ہیں۔ یوٹیوب چینلز کی ذریعے ویب سائٹ کے ذریعے چھوٹی چھوٹی ویڈیوز بنا کر اسلام کو پیش کر سکتے ہیں۔ ماہ ربیع الاول کا مبارک مہینہ شروع ہے ہم اس مہینے کی نسبت سے اللہ تعالیٰ کے پیغام قرآن کریم اور نبی کریم ﷺ کی تعلیمات کو عام کرنے کیلئے غیر مسلموں کو مدعو کرکے اسلام کی دعوت پیش کرسکتے ہیں۔ انھیں اپنے بھولے ہوئے سبق کو یاد دلا سکتے ہیں انکی امانتوکو ہم مختلف زبانوں میں تراجم کیے گیے قرآن کے نسخوں کو اور نبی کریم ﷺ کی تعلیمات پر مبنی کتابوں کو تحفہ کے دور پر پیش کرسکتے ہیں۔
اگر ہم نے ایسے مختلف مواقعوں کو غنیمت جان کر اسلام کی تعلیمات کو عام کیا تو انسانیت جو اصل چین سکوں اور اپنے پیدا کرنے والے رب کی تلاش میں ہے ان کے لیے ہم ذریعہ بن سکتے ہیں۔ جب انسانوں کو اس بات کا یقین ہوگا کہ جس خدا نے پہلی بار پیدا کیا وہ دوبار بھی پیدا کرسکتا ہے اور ہم سے ہماری زندگی کا حساب لیگا تو احساس ذمہ داری ان پر قائم ہوگی تو دنیا میں غلط کام کرنے سے رکے گے اور ساتھ ہی سچے خدا کی تلاش میں نکل پڑے گے، اور جب کوئی سچے دل سے اپنے پیدا کرنے والے رب کو پکارتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے صراط مستقیم سے سرفراز کرتا ہے اسے اپنی پہچان کرواتا ہے اور وہ انسان اسلام کی آغوش میں پناہ لیتا ہے تب جاکر وہ دلی سکون کو حاصل کرتا ہے کیونکہ اب اسکے پاس آفاقی منشور ہوتا ہے زندگی گزارنے کے لیے قرآن اس کا رہنما بنتا ہے اور رسول ﷺ اس کے رہبر بن جاتے ہیں۔ یہی حیات زندگی کا مقصد ہے باقی سب ضرورت کی چیزیں ہیں ہم اس دنیا میں مسافر ہے اور ہمیں صرف ضرورت کے سامان ساتھ رکھنا چاہیے اس سے زیادہ ہمارے لیے بوجھ بن جائے گا۔ جیسے ایک انسان لمبے سفر کیلئے نکلتا ہے تو وہ اپنا سامان مختصررکھتا ہے کہ وہ اپنے سفر سے اچھی طرح لطف اندوز ہو کوئی بوجھ نہ ہو سامان کی فکر اسے پریشان نہ کریں تب جاکر اس کا سفر اچھے سے گزرتا ہے۔ اسی لیے آخرت میں کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ ہم دنیا میں مسافر کی طرح رہ کر زندگی گزاریں تاکہ آخرت میں حساب کتاب کا بوجھ نہ ہو۔