مضامین

کانگریس کے لیے دوبارہ سیکولرقدروں کی جانب لَوٹ آنا ضروری ؛ کرناٹک کی شاندار فتح کانگریس کے نئے دور کا آغاز

سیّد علی انجم رضوی
آزادی کے بعد سے ایک طویل عرصے تک ملک کے مسلمان کئی دہائیوں تک کانگریس کی حمایت میں سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑے رہے۔ اِس کی واحد وجہ کانگریس کا سیکولر رویّہ تھی۔ کانگریس نے اِن ستّر (70) سالوں میں مسلمانوں کو کچھ دِیا یا نہیں، اس بحث سے قطع نظر، مسلمانوں کے تئیں کانگریس کے رہنماو ¿ں کا ہمدردانہ رویّہ ہی مسلمانوں کو کانگریس کی جانب کھینچ لیتا تھا۔ مسلمانوں نے کانگریس کی سیکولر شبیہ کے مقابلے میں اس کے ذریعے نظر انداز کئے جانے پر بھی اتنی توجہ نہیں دی اور مسلمان کانگریس کی حمایت میں ڈَٹے رہے۔ یہ بات الگ ہے کہ کانگریس کی مبینہ مسلم نوازی کا پردہ تو سچر کمیٹی کی رپورٹ نے فاش کر دیا، جس میں بتایا گیا کہ مسلمانوں کی حالت تو دلتوں اور آدیواسیوں سے بھی پسماندہ ہے۔
اس بات سے قطع نظر کہ راجیو گاندھی کے ذریعے بابری مسجد کا دروازہ کھولنے اور نرسمہا راو ¿ کے دور میں بابری مسجد کی شہادت نے مسلمانوں کو کچھ عرصہ تک کانگریس سے بہت دور بھی کر دیا تھا۔ مگر بعد میں تمام گِلے شِکوے بھ ±لا کر مسلمان پھر ایک بار کانگریس کی حمایت میں کھڑے ہو گئے۔

سن 2014ءکے بعد بھارت کا منظر نامہ :
2014 ءکے عام انتخابات میں ایک طرف تو کانگریس پر لگے بدعنوانیوں کے الزامات نے بی جے پی کو شاندار فتح دلائی ۔ تو دوسری طرف مودی جیسے کٹّر ہندوتوا وادی رہنما کو عوام نے سَروں پر بِٹھایا۔ کانگرس اپنی شکست فاش سے پوری طرح بیک فُٹ پر چلی گئی۔ یہی حال 2019ءکے عام انتخابات میں کانگریس کا رہا۔ کانگریس میں موجود ہندوتوا وادی دھَڑے نے اس شکست کا ٹھیکرا کانگریس کی مبینہ مسلم نوازی کے سر پھوڑا۔ پھر اس کے بعد کانگریس سر جوڑ کر بیٹھی اور اس کے رہنما برملا ”نرم ہندوتوا“ کو اپناتے دکھائی دیئے۔ مسلم نوازی کا ایک لفظ بھی ا ±ن کی زبان پر آنا بند ہو گیا۔ ا ±نھوں نے یہ سمجھ لیا کہ بھارت میں اب سیاسی کامیابی کا راز ہندوتوا ہی میں پوشیدہ ہے۔

”بھارت“ یا ”ہندوستان“ :

اس بات میں دو رائے نہیں کہ اردو شاعری میں ہمارے ملک کا نام ” ہندوستان “ ہی اکثر استعمال ہوا ہے۔ بہت سے دانشور بھی یہی نام استعمال کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جب بھارت کا دستور بنایا گیا اس وقت ہمارے ملک کا نام اتفاق رائے سے ” بھارت “ تجویز کیا گیا۔ ” بھارت “ تمام طرح کی رنگارنگی اور مذہبی ہم آہنگی کو اپنے ساتھ لیے ہوئے ہے۔ یہ نام بین الاقوامی سطح پر ایک سیکولر ملک کی شبِیہ کو ظاہر کرتا ہے۔ جبکہ ” ہندوستان “ایک مخصوص مذہب کی نشاندہی کرتا دکھائی دیتا ہے۔ شاید دستور ساز کمیٹی کے پیش نظر یہی وجہ رہی ہوگی ۔ اس لیے ” ہندوستان “ کی بجائے ملک کا نام ’ ’ بھارت “ تجویز کیا گیا۔ مگر 2019ءکی شکست کے بعد سے اگر ہم غور کریں تو کانگریس کے سربراہ راہل گاندھی ہر جگہ ملک کا نام ” ہندوستان “ ہی کہتے دکھائی دیتے ہیں۔ ا ±نھیں کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اب بیشتر کانگریسی لیڈر بھی ہندوستان ہی کہتے نظر آتے ہیں۔ کیا اس طرح دستور میں دیے گئے نام کو بدل کر راہل گاندھی ہندوو ¿ں کو اپنی جانب راغب کرنا چاہتے ہیں۔ کیا یہ ان کے نرم ہندوتوا کی علامت نہیں ہے !

کانگریس کی بِلاتکلّف مسلم نوازی ہی فتح کی سب سے بڑی وجہ :

کرناٹک انتخابات میں کانگریس کا رویہ قدرے بدلا ہوا محسوس ہوا۔ وہ اپنی روایتی سیکولر رَوِش پر دوبارہ گامزن نظر آئی۔ کرناٹک میں کانگریس کی مکمل انتخابی م ±ہم مسلم نوازی کو واضح طور پر ظاہر کر رہی تھی۔ ہمیں یاد ہے کہ یہ وہی کرناٹک ریاست ہے جس میں حِجاب اور حَلال کے علاوہ اسی طرح کے منافرت کے دیگر موضوعات نے پوری دنیا میں ہندوستان کی سیکولر شبیہ کو داغدار کیا تھا۔ کرناٹک کے حجاب تنازُع کی گونج سارے عالَم میں س ±نا ئی دی۔ فرقہ پرستوں کے ”جئے شری رام“ کے نعروں کے مقابلے میں بڑی جواں مردی سے نعرہ ¿ تکبیر ” اللہ اکبر“ بلند کرنے والی مُسکان خان نے عالمی منظر نامے پر ”حِجاب گرل“ کے طور پر شہرت پائی۔ چونکہ کرناٹک ایک ترقی یافتہ ریاست ہے۔ جس میں بیشتر باشندے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ لہٰذا کرناٹک کے روشن خیال باشِندوں کے لیے یہ بات بہت ہی پشیمانی کی تھی کہ ان کی ریاست کی پوری دنیا میں بطور متعصب ریاست شناخت بنتی جا رہی ہے۔ اِس لیے جب کانگریس نے اپنی انتخابی م ±ہم میں کھُل کر مذہبی منافرت کی مخالفت کی تو نہ صرف وہاں کی اقلیتوں کو یہ بات اچھی لگی بلکہ سیکولر غیر مسلموں کے لیے بھی یہ بات بہت زیادہ اپیل کرنے والی ثابت ہوئی۔ جس کا اثر براہِ راست وہاں کے اسمبلی نتائج میں نظر آرہا ہے۔ کانگریس پارٹی 224 میں 137 نشستوں پر کامیابی حاصل کر کے حکومت سازی کررہی ہے ۔

انتخابی مہم میں کانگریس کا مُسلم نوازی کا برملا اظہار :
کانگریس نے اپنی پوری انتخابی مہم کو خاص طور سے مسلمانوں پر مرکوز رکھا۔ کانگریس کی اعلیٰ کمان سے لے کر مقامی لیڈر شپ نے بھی مسلمانوں کے لیے ریزرویشن کا وعدہ علی الاعلان دہرایا۔ حِجاب اور حَلال جیسے موضوعات کی کھل کر مخالفت کی۔ سب سے بڑھ کر بجرنگ دَل پر پابندی کو اپنے مینوفیسٹو میں شامل کرنا سیکولر ووٹوں کو پولرائز کرنے میں بہت زیادہ مددگار ثابت ہوا۔ بلکہ یہ کہنا قطعی غلط نہ ہوگا کہ کرناٹک میں کانگریس کی شاندار جیت کی یہی شاہ کلید ہے۔

بجرنگ دَل پر پابندی کے اعلان کے م ±ثبَت نتائِج :

کانگریس نے اپنے مینوفیسٹو میں بڑی ہمت سے پی ایف آئی کے ساتھ ساتھ بجرنگ دَل پر پابندی کی بات لکھی۔ پہلے تو لگا کے کانگریس نے غیر دانشمندی کا مظاہرہ کرکے اس بات کو اپنے مینوفیسٹو میں شامل کر لیا ہے۔ جس کا فائدہ فرقہ پرست طاقتیں پوری قوت سے ہندو ووٹ کو متحد کرنے کے لیے اٹھائیں گی۔ ہوا بھی ویسا ہی۔ نہ صرف بی جے پی بلکہ مودی نے بھی اس ایشو کو اٹھانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ مگر ایسا کر کے وہ ہندو ووٹ کو متحد کرنے میں پوری طرح ناکام رہے۔ اس کے برخلاف اس ایشو پر نہ صرف مسلمانوں نے مکمل اطمینان کا اظہار کیا۔ بلکہ سیکولر ہندوو ¿ں نے بھی اسے پسند کیا۔ کیونکہ کرناٹک کی عوام کسی بھی طرح کی مذہبی منافرت کو ناپسند کرتی رہی ہے۔ پھر مسلم ریزرویشن کے اعلان سے بھی مسلمانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ان باتوں کا فائدہ یہ ہوا کہ مسلمانوں نے ایک م ±شت ووٹ یعنی تقریبا 75 فیصدی ووٹ کانگریس کے کھاتے میں ڈال دیئے۔ یہی وجہ رہی کہ جی ڈی ایس کو اس مرتبہ بہت ہی کم نشستوں پر کام یابی ملی۔ کیونکہ جے ڈی ایس کا بھی بہت بڑا ووٹ بینک مسلمان ہی ہیں۔
کرناٹک الیکشن میں کانگریس کو ملنے والی شاندار کامیابی اس کے نئے دور کا آغاز سمجھا جاسکتا ہے۔ 2024ءمیں ہونے والے عام انتخابات میں بھی کانگریس کا یہ رویہ بہت ہی کارآمد ثابت ہونے والا ہے۔ بس اب کانگریس کو چاہیے کہ وہ ” نرم ہندوتوا “ کو ترک کرتے ہوئے اپنے پُرانے سیکولر رویّے کی جانب لَوٹ آئے۔ پھر وہ دن دور نہیں کہ جب کانگریس کے ہاتھوں میں بھارت کی حکومت کی کمان بھی نظر آئے گی۔

kawishejameel

chief editor

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: مواد محفوظ ہے !!