علماء انبیاء کرام کے وارث ہیں، دین کی حفاظت علماء کی بنیادی ذمہ داری ہے: مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی ؛ جامعہ تعلیم القرآن بنگلور آمد پر مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی کا مفتی افتخار احمد قاسمی نے کیا پرتپاک استقبال!
بنگلور: 26/ اکتوبر (پریس ریلیز): گزشتہ دنوں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے سکریٹری اور مرکز تحفظ اسلام ہند کے سرپرست حضرت مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی صاحب مدظلہ کرناٹک بالخصوص بنگلور کے دورے پر تھے۔ جہاں انہوں نے مختلف اداروں کا دورہ بھی کیا۔ اس موقع پر مرکز تحفظ اسلام ہند کے سرپرست اور جامعہ تعلیم القرآن بنگلور کے بانی و مہتمم حضرت مولانا مفتی افتخار احمد قاسمی صاحب مدظلہ (صدر جمعیۃ علماء کرناٹک) کی رہبری میں اور حضرت مولانا محمد مقصود عمران رشادی صاحب مدظلہ (امام و خطیب جامع مسجد سٹی بنگلور) کے ہمراہ جامعہ تعلیم القرآن، راگے ہلی، بنگلور کا دورہ کیا۔ جہاں منعقد ایک نشست میں طلباء و اساتذہ کرام سے خطاب کرتے ہوئے مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ مسلمان کو اس بات کا علم ہے کہ ایمان قبول کرلینے کے بعد سب سے اہم چیز ”علم دین“ ہے۔ کیونکہ جو چیزیں ایمان میں مطلوب ومقصود ہیں، کہ جن پر عمل کرنے سے ایمان میں کمال آتا ہے، اور جن پر دین کی اشاعت و حفاظت کا مدار ہے، وہ چزیں دین کے علم کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتیں۔ اور امت کی رہبری و رہنمائی اور فتنوں کے تعاقب اور اسلام کے دفاع وہی لوگ کرسکتے جو علم دین میں گہرائی رکھتے ہوں۔اور دین میں گہرائی رکھنے والوں کو عرفاً عالم دین کہتے ہیں۔ مولانا نے عالم اور جاہل میں فرق بتاتے ہوئے حضرت حسن بصریؒ کا ایک ارشاد نقل کیا کہ جب فتنہ آرہا ہوتا ہے تو عالم اسے پہچان لیتا ہے اور جب فتنہ لوٹنے لگتا ہے تب جاہل جانتا ہیکہ یہ فتنہ تھا۔ مولانا نے فرمایا کہ قرآن و حدیث میں عالم دین کے بے شمار فضیلتیں بیان کی گئی ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ علماء انبیاء کے وارث ہیں اور بے شک انبیاء کی وراثت درہم و دینار نہیں ہوتے بلکہ ان کی میراث علم ہے۔ پس جس نے اسے حاصل کیا اس نے انبیاء کی وراثت سے بہت سارا حصہ حاصل کر لیا۔ مولانا رحمانی نے علماء کا مقام بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ حدیث کی کتابوں میں لکھا ہیکہ قیامت کے دن علماء کے قلم کی سیاہی اور شہیدوں کا خون ایک ساتھ تولا جائے گا کیونکہ شہید وہ ہوتا ہے جو اسلامی سرحد کی حفاظت کرتے ہوئے اپنی جان اللہ کے سپرد کرتا ہے اور عالم وہ ہوتا ہے جو اپنے قلم کے ذریعے دین کی سرحدوں کی حفاظت کرتا ہے، وہ کسی بھی دشمن دین کو دین کے دائرے میں فتنے کے ساتھ داخل نہیں ہونے دیتا اس لیے دونوں کو برابر رکھا گیا ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ علماء اور طلباء کے لئے علم کی راہ میں اخلاص کو ضروری قرار دیا گیا ہے، اس کا حاصل یہ ہے کہ وہ علم کی راہ میں جو بھی کوشش اور محنت کریں وہ صرف اللہ کی رضا اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے کریں، حصول علم اور اشاعت علم کا مقصد حصولِ دنیا نہ ہو۔ اگر کوئی حصول دنیا کی غرض سے علم کی راہ میں لگا ہوا ہے، تو اس کے لئے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سخت وعیدیں ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ سب سے پہلے ہمیں یہ ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ ہم علوم نبوت حاصل کررہے ہیں، یہ کوئی مادی علم نہیں بلکہ روحانی علم ہے اور روحانیت کے حصول کے لیے ہمارا ظاہری وباطنی طور پر ہر قسم کی گندگیوں اور غلاظتوں سے پاک صاف ہونا ضروری ہے کیونکہ میلے کچیلے، گندے اور گدلے برتن اس لائق نہیں ہوتے کہ ان میں کوئی صاف ستھری چیز ڈالی جائے۔ آپ کے لباس کا جس طرح ظاہری گندگی ونجاست سے پاک ہونا ضروری ہے، اسی طرح
آپ کی آنکھوں، آپ کے کانوں، آپ کی زبان کا بھی گناہوں کی گندگی وغلاظت سے پاک صاف ہونا ضروری ہے۔ مولانا رحمانی نے فرمایا کہ فتنوں کے اس نازک دور میں جبکہ ہر طرف اسلام اور مسلمانان عالم پر یلغار کی جارہی ہے، اسلام دشمن عناصر جدید ذرائع ابلاغ کو استعمال کرکے اسلامی تعلیمات کے خلاف زبردست پروپیگنڈہ کررہے ہیں، قسم قسم کے داخلی وخارجی فتنوں کا ایک سیل رواں ہے جو رکتا ہوا نظر نہیں آتا، ایسے پُرنزاکت دور میں ملت اسلامیہ کرب واضطراب کے ساتھ مخلص افرادِ کارکی متلاشی ہے اور اس کو ایسے بافیض متدین علماء کی اشد ضرورت ہے جو عالمانہ بصیرت رکھتے ہوں، جن کے علم میں گہرائی ہو، جو دشمنوں کی آنکھ میں آ نکھ ڈال کر انہیں چیلنج کرسکتے ہوں۔ مولانا نے فرمایا کہ عالم دین جب گہرا علم رکھنے والا ہوگا تب وہ یہ خدمت انجام دے سکے گا۔ انہوں نے طلباء کرام کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا آپ پڑھ رہے ہیں، ابھی سے یہ ذہن بنا لیں کہ آپ کو بس پڑھنا، پڑھنا اور پڑھنا ہے، محنت کا مزاج بنا لیں، بس علم کے حصول کو اپنا مقصد بنالیں، اپنے آپ کو علم کے لیے وقف کردیں، جب تک آپ اپنے آپ کو مکمل طور پر علم کے سپرد نہیں کریں گے اس وقت تک علم میں سے کچھ بھی حاصل نہیں کرسکتے۔ کیونکہ علم یہ چاہتا ہے کہ آپ اپنے آپ کو مکمل طور پر اس کے حاصل کرنے میں کھپادیں اور تمام فضولیات سے مکمل طور پر پرہیز کریں، اور اساتذہ اور کتابوں کا ادب و احترام کریں، ان شاء اللہ علم نافع حاصل ہوگا اور علم میں برکت بھی ہوگی۔ مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ ملک کی ممتاز شخصیت حضرت مولانا مفتی افتخار احمد قاسمی صاحب مدظلہ کے اس ادارے میں حاضر ہو کر اس لیے دل خوش ہو رہا ہے کہ یہ ادارہ دین کی تعلیم کا مرکز بھی ہے اور سلیقہ مندی، ترتیب، حسن انتظام اور طلبہ کی ہمہ جہت رہنمائی کا بھی مرکز ہے۔انہوں نے طلباء کو مخاطب ہوکر فرمایا کہ آپ خوش قسمت ہیں کہ آپ کو اس ادارے میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس دینی تعلیم کے مرکز کو رشد و ہدایت، تعلیم و تربیت، علم و عمل اور ملت اسلامیہ کی صحیح بر محل رہنمائی کا مرکز بنا دے۔ اللہ تعالیٰ حضرت مولانا مفتی افتخار صاحب قاسمی اور ان کے مخلص ساتھیوں اور تمام معاونین کو اجر عظیم عطا فرمائے۔ قابل ذکر ہیکہ جامعہ تعلیم القرآن بنگلور میں حضرت مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی صاحب کی آمد پر حضرت مولانا مفتی افتخار احمد قاسمی صاحب اور انکے رفقاء نے مولانا کا پرتپاک استقبال کیا اور طلباء و اساتذہ کرام کے سامنے انکی خدمات پر روشنی ڈالی۔ اس موقع پر جامع مسجد سٹی بنگلورکے امام و خطیب حضرت مولانا محمد مقصود عمران رشادی صاحب مدظلہ، نائب امام مولانا ضمیر احمد رشادی کے علاوہ جامعہ تعلیم القرآن کے اساتذہ و دیگر حاضرین سمیت مرکز تحفظ اسلام ہند کے ڈائریکٹر محمد فرقان، اراکین حافظ محمد حیات خان، قاری عبد الرحمن الخبیر قاسمی، محمد فیض، محمد عزیر رحمانی، وغیرہ خصوصی طورپر شریک تھے۔