بہرائچ :سیلف ڈیفنس کو عدالت نے منصوبہ بند قتل بناڈالا!

ندیم عبدالقدیر
ذرا اُس پریوار کے بارے میں سوچئے جو اپنے گھر میں اپنے معمول کی زندگی گزارر ہا ہو اور مسلم نفرت کی آگ ان کے ہنستے کھیلتے گھر کو برباد کرکے رکھ دے۔ بہرائچ میں سرفراز کے گھر کےساتھ بھی بالکل ایسا ہی ہوا۔ ۱۳؍اکتوبر ۲۰۲۴ء کے روز سرفراز کے اہل خانہ اپنی زندگی میں مصروف تھے ۔ انہیں کسی سے کوئی لینا دینا نہیں تھا ۔ہندو ہجوم ہندو دیوی درگاہ کو ڈبانے کیلئے جارہاتھا۔ ہجوم سرفراز کے گھر کے پاس رُ ک گیا ۔ ہجوم میں سے ایک نوجوان رام گوپال مشرا زبردستی سرفراز کے گھر میں گھس گیا۔ رام گوپال اس وقت پورے ہجوم کی نمائندگی کررہا تھا ۔ ایک ہجوم کے نمائندے کے گھر میںزبردستی داخل ہونے سے گھر کی خواتین کا ڈر اور خوف کے مارے کیا حا ل ہوا ہوگا یہ سمجھا جاسکتا ہے ۔اس کے بعد رام گوپال مشرا مکان کی چھت پر چڑھ جاتا ہے اور وہاں موجود سبز پرچم نکال کر بھگوا جھنڈا لہراتا ہے۔ اس کے ایسا کرتے ہی ہجوم خوشی سے جھوم اٹھتا ہے اور’جئے شری رام‘ کے نعرے لگانے لگتا ہے ۔ اسی سے ثابت ہوتا ہے کہ رام گوپال مشرا اس ہجوم کی نمائندگی کررہا تھا۔اسی وقت کسی نےرام گوپال مشرا کوگولی ماردی ۔
پولس کا کہنا ہے کہ یہ گولی سرفراز نے چلائی ۔ اگر سرفراز نے یہ گولی چلائی بھی تو بھی یہ دفاع(سیلف ڈیفنس) کا معاملہ بنتا ہے اور اپنے دفاع کا حق ہر شہری کو ہے ،لیکن اس کے بعد پولس نے سرفراز اور اس کے اہل خانہ پر عتاب نازل کردیا۔ ایسی ایسی کہانیاں گڑھی گئیں کہ بڑے بڑے کہانی کار بھی شرما جائیں۔ جیسے یہ کہ رام گوپال کو گھسیٹا گیا، ا س کے ناخن اکھاڑے گئے، اس کے جسم پر درجنوں زخم کے نشان تھے وغیرہ وغیرہ ، جبکہ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ پولس نے پہلے اپنی ایف آئی آر میں یہ باتیں لکھی تھیں تاہم بعد میں ہٹالی ،لیکن بہرائچ کے سیشن کورٹ نے تو حد ہی کردی۔اس نے اپنے فیصلے میں ناخن اکھاڑنے، رام گوپال کو گھسیٹنے اور اس پر تشدد کرنے جیسی من گھڑت باتوں کا ذکر کرتے ہوئے سرفراز کو پھانسی کی سزاسنادی اور اس کے ساتھ دیگر۹؍لوگوں کو عمر قید کی سزا۔ اس میں سرفراز کے بھائی اور اس کے والد بھی شامل ہیں۔ یعنی پورا پریوار ہی تباہ ہوگیا۔وہ پریوار جو کسی کے گھر پر حملہ کرنے نہیں گیا، وہ پریوار جو امن و امان سے اپنی زندگی گزاررہا تھا ، وہ پریوار جس کا کسی سے کوئی لینا دینا نہیں تھا ۔ ایساپریوار مسلم نفرت کی بھٹی میں بھسم ہوکر رہ گیا۔ پولس نے اس معاملے میں اُسی بےرحمی کا مظاہرہ کیا جو وہ مسلمانوں کے معاملات میں کرتی ہے۔ سرفراز اور دیگر۱۲؍لوگ ایک سال سے جیل میں ہیں، اور ان کے ضمانت پر رِہا ہونے کی امید بھی معدوم ہی ہے۔سرفراز کے پریوار کے پاس لائسنس والی ریوالور بھی تھی۔اگر باالفرض محال پولس کی بات مان بھی لی جائے کہ گولی سرفراز نے ہی چلائی تھی ۔ تب بھی یہ دفاع کا ہی معاملہ بنتا ہے ۔ جب ایک ہجوم کا نمائندہ آپ کے مکان میں داخل ہوجائے، مکان کی چھت پر پہنچ جائے اور آپ کے مکان کو نقصان پہنچائے تو مکان کے مکینوں کا خوفزدہ ہونا اور خود کو خطرے سے گھرا ہوا سمجھنا بہت ہی فطری امر ہے۔ ایسے ہی لمحے میں اپنے دفاع کیلئے لائسنس یافتہ پستول سے گولی چلادینا عام بات ہے بلکہ پستول کے لائسنس ایسے ہی وقت کیلئے جاری کئے جاتےہیں یہی ان کا مصرف ہے۔ ہندوستان میں ایسے درجنوں معاملات ہیں جن میں لوگوں نے اپنے دفاع کیلئے گولی چلائی ۔ ’’مہندر پال جولی بمقابلہ ریاست پنجاب (۱۹۷۹ء)‘‘ اور’درشن سنگھ بمقابلہ ریاست پنجاب۔(۲۰۱۰ء)‘‘ اسی طرح کے’سیلف ڈیفنس ‘ کے بہت ہی مشہور معاملات ہیں ۔ان معاملات میں ملزمین نے خود کے دفاع کیلئے گولی چلادی تھی اور عدالت نے ان کے حق دفاع کو تسلیم بھی کیا۔ گوپال مشرا کے معاملے میں (اگر واقعی گولی سرفراز نے چلائی بھی ہے ، تب بھی ) یہ سیلف ڈیفنس کا معاملہ ہے لیکن عدالت نے ناقابل یقین طو رپر سیلف ڈیفنس کے معاملے کو منصوبہ بند قتل بناڈالا۔ اتنا ہی نہیں بلکہ پولس کا اس معاملے میں دیگر ۱۲؍لوگوں کو بھی ملزم بنادینا اور عدالت کا ان ۱۲؍میں سے ۹؍کو عمر قید کی سزا سنا دینا انصاف نہیں بلکہ انتہائی بے رحمانہ ظلم کی مثال ہے۔ یہ صرف قسمت کی ہی بات ہے کہ رام گوپال مشرا کے قتل کا ویڈیو موجود ہے۔ اس کے سرفراز کے مکان کی چھت پر چڑھنے ، وہاں سے سبز پرچم نکالنے اور بھگوا جھنڈا لگانے سب کے ثبوت موجود ہیں۔ اس ویڈیو کی موجودگی کے باوجود پولس نے یہ کہانی بنائی کہ رام گوپال مشرا کو سرفراز اور دیگر ملزمین جلوس سے گھسیٹتے ہوئے اپنے مکان میں لے گئے اور وہاں گولی ماردی۔اس سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے ملک میں وہ سارے معاملات جن میں مسلمان ملزم ہوتےہیں ، پولس نہ جانے کتنی جھوٹی کہانیاں گڑھتی ہے۔
یہ واقعہ محض ایک فوجداری مقدمہ نہیں بلکہ ہندوستان میں انصاف، قانون کی عمل داری اور اقلیتوں کے ساتھ ریاستی رو ئیے پر ایک گہرا سوالیہ نشان ہے۔ بہرائچ کا معاملہ اس تلخ حقیقت کو عیاں کرتا ہے کہ کس طرح ’’سیلف ڈیفنس‘‘ جیسے تسلیم شدہ قانونی حق کو بھی مخصوص حالات میں منصوبہ بند قتل بنا کر پیش کیا جا سکتا ہے اور کس طرح ایک پورا خاندان نفرت، تعصب اور جانبدارانہ تفتیش کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے۔
اخلاق احمد کو دادری میں ہجوم نے اس کے مکان میں گھس کر قتل کردیا تھا۔اُس معاملے میں ایک سال میں ہی تمام ملزمین کو ضمانت مل گئی اور اب اترپردیش حکومت اخلاق احمد کے قاتلوں کو مکمل طور پربری کردینے کی کوشش کررہی ہے ۔ بہرائچ کے سرفراز معاملے میں شاید اترپردیش حکومت کو اس با ت پر غصہ ہے کہ سرفراز کے اہل خانہ نے دادری کے اخلاق کے اہل خانہ کی طرح خاموشی کےساتھ اپنے گھر میں کسی کی موت کا تماشا کیوں نہیں دیکھا ؟
دراصل حکومت یہ پیغام دینا چاہتی ہے کہ جب ایک ہندو ہجوم مسلمان کے مکان میں گھس کر وحشیانہ حرکت کرے تب مسلمانوں کو، خود کو ان حملہ آوروں کے سامنے پیش کردینا چاہئے اور اگر مسلمان ایسا نہیں کریں گے تو پھر اس ہندو ہجوم کی بجائے خود ریاست ایسے مسلمانوں کو کہیں زیادہ بے رحم سزا دے گی۔ سرفراز کا معاملہ ریاست کی طرف سے ایک ہیبت ناک پیغام ہے کہ مسلمانوں کو خاموشی سے سارے ظلم برداشت کرنا چاہئے، اگر انہیں رسوا اور ذلیل کیا جارہا ہے تو مسلمانو ںکو خاموشی کےساتھ اسی طرح رسوا اور ذلیل ہوجانا چاہئے، انہیں سیلف ڈیفنس کا بھی حق نہیں ہے۔ آدی واسیوں اور دلتوں کے ساتھ ۲۰۰۰؍سال سے یہی ہوتا آرہاہے۔ آج دلتوں کی جو حالت ہوئی ہے وہ یونہی نہیں ہوئی ۔ وہ اس طرح کے ان گنت واقعات دیکھنے کے بعد ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک اعلیٰ ذات کا فرد کسی آدی واسی پر کھڑے ہوکر پیشاب کردیتا ہے تو وہ آدی واسی اور اس کی پوری قوم خاموش رہتی ہے، کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ اُنہیں ’دفاع‘ کا بھی اختیار نہیں ہےاور اگر وہ برداشت نہیں کریں گے تو پھر ریاست انتہائی بے رحمانہ مظاہرہ کرے گی۔
(مضمون نگار روزنامہ اردوٹائمز ،ممبئی میں فیچر ایڈیٹر ہیں)



