عدالتوں سے سڑکوں تک: شاہ بانو، بابری اور بھارتی مسلم سماج کا بدلتا سفر

تحریر:عبید باحسین
7350715191
بھارت کی اجتماعی یادداشت میں کچھ تاریخیں ایسی ہیں جو محض واقعات نہیں بلکہ بے چینی، درد اور ٹھہری ہوئی امیدوں کی طرح درج ہیں۔ 6/ دسمبر بھی انہی میں سے ایک ہے۔ 1989ئ میں پیدا ہونے والی ہماری نسل نے اس دن کو پہلے ماتم، پھر غصّے اور آخر میں ایک طویل تھکاوٹ کی صورت میںمحسوس کیا۔ بچپن میں جب اُردو اخبار ’نئی دنیا‘ کے پہلے صفحہ پر بابری مسجد کی تصویر دیکھتے، تو وہ محض ایک تصویر نہیں تھی، بلکہ ہمارے اندر سیاست، شناخت اور عدمِ تحفظ کی ایک طویل کہانی کی ابتدا ئ تھی۔
ہمارا نام ’عبید‘رکھا گیا، جو اگرچہ بھارت میں عام ہے مگر یمن سے پھیلے ہوئے عرب معاشرے میں کم سنائی دیتا ہے۔ ہمارے دادا ابوبکر باحسین نے یہ نام سابق رکنِ پارلیمنٹ مولانا عبیداللہ اعظمی کے احترام میں رکھا تھا، جن کی پارلیمنٹ سے سڑک تک گونجنے والی تقریریں اس دور کے مسلم سیاسی ذہن کو گہرائی سے متاثر کرتی تھیں۔ شاید اسی وجہ سے ہمارے جیسے بہت سے بچوں کے نام ان برسوں میں ’عبید‘ رکھے گئے۔
ہمارا ننھیال نظام آباد میں ہے، وہی شہر جو 1948ئ کے پولیس ایکشن کے بعد ناندیڑ سے آئے ہوئے مسلم خاندانوں کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ بن گیا تھا۔ ہماری نانی کا خاندان بھی پہلے ناندیڑ میں رہتا تھا، پھر پولیس ایکشن کے دوران اپنی جان بچانے کے لیے ان کے والد نے ناندیڑ سے کریم نگر اور پھر نظام آباد میں سکونت اختیار کی۔ ہر سردی کا موسم ہمارے لیے نظام آباد کی یادوں سے بھرا ہوتا تھا۔ گلیوں میں ’کالا دن‘ اور ’یومِ سیاہ‘ کے بورڈ لگے ملتے، دکانوں پر سیاہ جھنڈے اور بازاروں میں پھیلی گہری خاموشی ہمیں حیران کرتی۔ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ ایک دن کے لیے اتنا بڑا شہر کیوں ٹھہر جاتا ہے۔ بڑے ہونے پر معلوم ہوا کہ جب ہم بہت چھوٹے تھے تو ایک مسجد گرا دی گئی تھی، ہماری مسجد، اور یہ ماتم اسی صدمے کی یاد تھا۔
اسی زمانے میں ہمارے ماموں ایک واقعہ سناتے تھے۔ فسادات کی کشیدگی میں کچھ نوجوانوں نے غصّے میں ہائی وے پر کھڑے ایک بڑے ٹرک کو آگ لگا دی۔ ٹرک تو جل کر راکھ ہوگیا، مگر اس کا دھماکہ انہی نوجوانوں میں سے ایک کو عمر بھر کے لیے معذور بنا گیا۔ اس وقت یہ صرف ایک خوفناک قصہ لگتا تھا مگر وقت کے ساتھ سمجھ آیا کہ تشدد کی آگ نہ دوست پہچانتی ہے نہ دشمن۔ وہ جسم ہی نہیں، پورے معاشرے کے مستقبل کو راکھ کر دیتی ہے۔
ہم آہستہ آہستہ یہ بھی سمجھنے لگے کہ بابری مسجد کو صرف ایک بھیڑنے نہیں بلکہ منظم فرقہ وارانہ جنون نے گرایا تھا۔ مگر ہمارے بزرگ ہمیشہ بتاتے کہ فساد صرف نفرت کی کہانی نہیں ہوتے، ان میں انسانیت کی بچی ہوئی روشنی بھی اکثر جھلک اٹھتی ہے۔ ہمارے محلے میں یادو سماج کے ہندوؤں کو مسلمانوں نے بچایا اور کئی شہروں میں ہندوؤں نے مسلمانوں کی جانیں بچائیں۔ شادی بیاہ سے لے کر جنازوں تک ایک ایسا رشتہ قائم تھا جس میں مذہب سے پہلے انسانیت کی پہچان تھی۔ یہ میل جول آج بھی بھارت کی مٹی میں موجود ہے، خواہ سیاست اسے بار بار توڑنے پر آمادہ رہتی ہے۔
1992ئ کے بعد فسادات ہوئے، گھر جلے، روزگار چھن گئے اور ایک طویل ہجرت شروع ہوئی۔ یہ ہجرت صرف شہروں کی نہیں تھی، یہ اعتماد، تحفظ اور شہری ہونے کے احساس کی بھی ہجرت تھی۔ ممبئی اور گجرات سے خوف زدہ کئی خاندان پونے، مالیگاؤں، بھیونڈی اور جنوب کے علاقوں میں آکر بسے۔ اس دور میں آندھرا پردیش،تلنگانہ نسبتاً محفوظ محسوس ہوتا تھا، اسی لیے وہاں بھی مسلم آبادی بڑھی۔ اسی زمانے میں خوف کی سیاست نے مستقل طور پر معاشرے میں جگہ بنا لی۔
بابری مسجد ایکشن کمیٹی قانونی طور پر مسلمانوں کا موقف پیش کر رہی تھی۔ ان کی بنیادی دلیل یہ تھی کہ معاملہ عدالت میں ہے، لہٰذا بھارت کے آئین اور قانون کے مطابق جو بھی فیصلہ آئے گا، مسلمان اسے قبول کریں گے۔ یہ رویہ ایک آئینی اور جمہوری اعتماد کی علامت تھا۔ دوسری طرف وشوا ہندو پریشد اور بجرنگ دل کے کئی رہنما کھلے عام کہتے تھے کہ اگر سپریم کورٹ بھی مسجد کے حق میں فیصلہ دے دے، تب بھی وہ حکومت پر دباؤ ڈال کر پارلیمنٹ سے نیا قانون بنوائیں گے اور اسی جگہ شاندار رام مندر تعمیر کریں گے۔
سوال یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو ’’قانون بنا کر بدل دینے‘‘ کا یہ تصور وشوا ہندو پریشد کو کہاں سے ملا؟ اس کی بنیاد شاہ بانو کیس میں پڑی تھی۔ شاہ بانو بیگم، جن کی عمر اس وقت تقریباً 62/برس تھی، نے 1978ئ میں طلاق کے بعد گزرانِ بھتّے کی درخواست دی تھی، اور 1985ئ میں سپریم کورٹ نے ان کے حق میں فیصلہ دیا۔ لیکن مسلم قیادت کے ایک حصے نے اسے شریعت میں مداخلت قرار دیا۔ دنیا بھر میں مسلم معاشرے میں اصلاحات، جدید قانون اور خواتین کے حقوق پر گفتگو ہورہی تھی، مگر ہندوستان میں جذباتی جلوسوں کا طوفان اٹھا۔ راجیو گاندھی حکومت نے سیاسی دباؤ میں آکر 1986ئ میں ایک ایسا قانون پاس کیا جس نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو تقریباً بے اثر کر دیا۔
یہیں مسلمانوں کی سب سے بڑی شکایت نے جنم لیا کہ پورے تنازعے کا مرکز ایک معمر، بے سہارا عورت کا خرچ تھا، مگر اسے یکایک مذہبی شناخت کا مسئلہ بنا دیا گیا۔ آج عدالتوں میں باری باری سے بیٹھیں وہی سیاہ برقعوں میں لپٹی عورتیں گھریلو تشدد، نان و نفقہ، بچوں کی تحویل، مہر اور طلاق کے لیے عرضیاں بھرتی نظر آتی ہیں۔ جن کے نام پر کبھی جلوس نکالے گئے تھے، وہی خواتین آج عدالت کی دہلیز پر انصاف تلاش کر رہی ہیں۔ رفتہ رفتہ سمجھ میں آیا کہ جذباتی قیادت نے جتنا ہمیں جوڑا نہیں، اس سے زیادہ کمزور کیا۔
پھر بابری مسجد کی طرف آئیے۔ 1986ئ میں راجیو گاندھی نے تالا کھلوا کر سیاسی توازن قائم کرنے کی کوشش کی۔ پھر کچھ برس بعد ان کا قتل ہوگیا۔ نرسمہا راؤ کے دور میں اڈوانی اور ان کے ساتھی تحریک کو فیصلہ کن موڑ تک لے آئے۔ بابری مسجد ایکشن کمیٹی قانونی جدوجہد کر رہی تھی، مگر 6/دسمبر 1992ئ کو جب مقدمہ سپریم کورٹ میں زیرِ سماعت تھا، مسجد گرا دی گئی۔ ملک بھڑک اٹھا۔ مسلمانوں کے لیے یہ صرف عبادت گاہ کی شہادت نہیں تھی، بلکہ قانون کے ٹوٹنے، اعتماد کے بکھرنے اور شہری تحفظ کی بنیادیں ہل جانے کا لمحہ تھا۔
جے این یو کے پروفیسر سومیابرتا چودھری یاد دلاتے ہیں کہ 6/دسمبر 1992ئ محض اتفاق نہیں تھا۔ یہ وہی دن تھا جب 1956ئ میں بابا صاحب امبیڈکر کا انتقال ہوا تھا۔ کئی بودھ مفکرین ہمیشہ دلیل دیتے آئے ہیں کہ ایودھیا کی وہ جگہ قدیم بدھ مت کا مقام ہے۔ اس بحث کا اصل موضوع یہ تھا کہ ہندوستانی تاریخ میں انقلاب اور ضدِ انقلاب کی لہریں ہمیشہ ایک دوسرے سے ٹکراتی رہی ہیں۔ بابا صاحب نے ذات پات کے نظام کے خلاف مزاحمت میں بدھ مت اختیار کیا۔ کےا ہم ےہ کہہ سکتے ہےں کہ تین دہائی بعد اسی دن ردعمل کی طاقتوں نے اےک بودھ مت کے مذہبی مقام کو گرا کر اپنا نشان چھوڑ دیا؟
2010ئ میں الٰہ آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ آنے والا تھا۔ میں اس وقت اورنگ آباد میں ملازمت کرتا تھا۔ 1992ئ سے 2010ئ کے یہ اٹھارہ برس میں بہت کچھ بدل چکا تھا۔ ناندیڑ میں اس دور میں معمولی بات پر فساد ہوتا تھا۔ آگ زنی، ہوائی فائرنگ، آنسو گیس اور اس کے بعد نوجوانوں کی گرفتاریاں عام تھیں۔ اٹھارہ برس بعد بھی لوگ ڈرے ہوئے تھے کہ اگر فیصلہ مسجد کے حق میں آیا تو ماحول خراب ہوسکتا ہے۔ گھر سے فون آیا اور مجھے ناندیڑ واپس آنے کو کہا گیا۔ میں اپنے دوست روی اور عمران کے ساتھ رات کی پسنجر ٹرین سے ناندیڑ پہنچا۔ الٰہ آباد ہائی کورٹ نے زمین کو تین حصوں میں بانٹ دیا، وقتی طور پر تو سب خاموش ہوگےا ۔ لےکن آگے جاکر 2019ئ میں سپریم کورٹ نے پورا علاقہ رام جنم بھومی نیاس کو دے دیا۔ بابری مسجد ایکشن کمیٹی تاریخ کے حاشیہ پر چلی گئی۔ مگر مسلمانوں کے حصے میں کیا آیا؟ شک، خفیہ اداروں کی نگرانی، فسادات، خوف اور 2006ئ سے 2012ئ تک سینکڑوں مسلم نوجوانوں کی گرفتاریاں۔ بہت سے لڑکے دس دس سال جیل میں رہنے کے بعد رہا ہوئے۔ ان کی زندگی کا کون سا عدالت فیصلہ واپس لا سکتا ہے؟
2006ئ کی سچر کمیٹی نے واضح لکھا کہ ہندوستانی مسلمان ملک کے سب سے پسماندہ طبقات میں شامل ہیں۔ من موہن سنگھ حکومت کی اسکالرشپ نے کچھ سہولت دی، مگر اس کے خلاف یہ غلط پروپیگنڈا کیا گیا کہ یہ صرف مسلمانوں کے لیے ہے، حالانکہ جین، سکھ، پارسی اور نو بودھ سب اس سے فائدہ اٹھاتے تھے۔ اس غلط بیانی نے مسلمانوں کی سماجی تصویر پر ایک اور زخم لگا دیا۔
قومی قیادت جذباتی مسائل میں الجھتی رہی۔ وقف بورڈ اور پرسنل لا بورڈ جیسے ادارے محدود حلقوں اور چند خاندانوں تک سمٹ گئے۔ آج ہم ایک بابری مسجد کے لیے لڑتے رہے مگر لاکھوں مساجد کو نئے وقف قانون میں رجسٹر کرانے میں ناکام ہیں۔ ہماری قومی ملی قیادت سے فائدہ کم، نقصان زیادہ ہوا۔ ہر مقامی مسئلے کو قومی مسئلہ بنانے کی عادت سب سے زیادہ نقصان دہ ثابت ہوئی، کیونکہ جب جواب آتا ہے تو اس کی چوٹ سب سے پہلے غریب مسلمان سہتا ہے، جنہیں نہ سیاست کی سمجھ ہوتی ہے نہ سودے بازی کی۔
مہاتما گاندھی کا ذکر یہاں ضروری ہے۔ آزادی کے وقت جب دہلی جشن منا رہی تھی، گاندھی فسادات کے درمیان بنگال، بہار اور نواکھلی میں تھے۔ وہ کہتے تھے کہ نفرت کو پولیس یا فوج نہیں روک سکتی، اسے دل روکتے ہیں۔ مگر گاندھی چلے گئے اور ان کے ساتھ وہ سماجی شعور بھی رخصت ہوگیا جو اس ملک کی روح تھا۔ نہرو بارہا کہتے تھے کہ ذات پات کا جنون اکثریت کے لیے بھی تباہ کن ہے، مگر اقلیت کے لیے تو خودکشی ہے۔ سابق پولیس کمشنر جُولیو ربیرو لکھتے ہیں کہ اکثریتی جنون کو روکنا کسی بھی انتظامیہ کے لیے سب سے مشکل کام ہے۔
اگر چند استثناؤں کو چھوڑ دیں تو فسادات نے کبھی کسی سیاسی لیڈر کے گھر کو نقصان نہیں پہنچایا۔ نہ ان کے کاروبار جلے، نہ ان کی نیند اُڑی۔ نقصان ہمیشہ غریب مسلمان نے برداشت کیا۔اپنا گھر، اپنی دکان، اپنی بیٹیوں کا مستقبل، اپنے بچوں کی فیس، اور سب سے بڑھ کر اپنی عزت اور حوصلہ۔ یہی تلخ حقیقت ہے کہ جن کے نام پر سڑکیں گرم کی گئیں، وہی لوگ بعد میں عدالتوں کے برآمدوں میں انصاف کی امید لیے کھڑے نظر آئے۔
اب فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے کہ ہم ماضی کی تاریک گلیوں میں بھٹکتے رہیں یا ایک نئی روشن راہ چنیں۔ یہاں علی شریعتی کا قول یاد آتا ہے کہ ہمیں صرف ماتم، غم اور رسم و رواج کی ادائیگی میں نہیں الجھنا چاہیے، بلکہ آگے بڑھ کر عدل اور آزادی قائم کرنے کی طرف دیکھنا چاہیے۔ ہمیں اپنے سماجی کردار پر زور دینا ہوگا۔
مسلمانوں کی اصل خواہش یہی ہے کہ وہ اس ملک میں برابری، تحفظ اور عزت چاہتے ہیں، کسی امتیاز کی نہیں۔ وہ اپنے وطن کو چھوڑنا نہیں چاہتے، انہیں صرف یہ چاہیے کہ ان کے بچوں کو شک کی نظر سے نہیں بلکہ اپنے ہنر اور کردار کی روشنی سے دیکھا جائے۔
ہمیں اپنے پڑوسیوں کے دروازے پر دستک دینی ہوگی، یہ کہنے کے لیے کہ ہم دشمن نہیں، ہم سفر ہیں۔ یہ ملک کسی ایک کی جاگیر نہیں، ہم سب کی مشترکہ وراثت ہے۔ مشترکہ ذمہ داری ہی اس کا مستقبل ہے۔
ملت کی حقیقی قیادت وہ ہے جو جذبات کو بھڑکائے نہیں بلکہ انہیں سمت دے۔ وقت آگیا ہے کہ مسلمان اپنے بچوں کو وہ بھارت دیں جہاں وہ سربلند ہو کر چل سکیں، خوف سے نہیں بلکہ اپنی محنت اور قابلیت سے پہچانے جائیں۔
اب فیصلہ ہمارا ہے، اور یہی فیصلہ آنے والے پچاس برسوں کی تاریخ لکھے گا۔ مولانا ابوالکلام آزاد کا جامع مسجد میں دیا ہوا تاریخی خطاب دوبارہ دہرانے کی ضرورت ہے:’’آؤ عہد کریں کہ یہ ملک ہمارا ہے۔ ہم اسی کے لیے ہیں اور اس کی تقدیر ہمارے بغیر ادھوری ہے۔ آج زلزلوں سے ڈرتے ہو؟ کبھی تم خود ایک زلزلہ تھے۔ آج اندھیروں سے کانپتے ہو؟ بھول گئے کہ تمہارا وجود خود ایک اُجالا تھا۔‘‘



