نتیش کا ہاتھ، قوم کا نقاب: بہار میں مسلم عزت سرِ بازار نیلام


از : جمیل احمد ملنسار
بنگلور،9845498354 موبائل
بہار کے نام نہاد “سوشل جسٹس” کے بادشاہ نتیش کمار نے 15 دسمبر 2025 کو پٹنہ کے سمواد ہال میں ایک ایسا شرمناک تماشہ کیا جس نے ہر باحیا مسلمان عورت اور غیرت مند مرد کے دل کو ہلا کر رکھ دیا۔ AYUSH کے 1283 ڈاکٹروں — 685 آیورویدک، 393 ہومیوپیتھک اور 205 یونانی — کو تقرری نامے دیے جا رہے تھے کہ اچانک اسٹیج پر بلائی گئی نوجوان یونانی ڈاکٹر نصرت پروین کو دیکھ کر نتیش کمار کا چہرہ بدل گیا۔ نصرت نے چہرہ نقاب سے ڈھانپ رکھا تھا؛ نتیش نے تیکھے انداز میں اس کی طرف اشارہ کر کے جھنجھلاہٹ سے بھرے لہجے میں کہا: “یہ کیا ہے؟” پھر منبر سے جھک کر اس کا نقاب خود اپنے ہاتھ سے کھینچ کر اتار دیا۔ ایک لمحے میں ایک ڈاکٹر، ایک پڑھی لکھی مسلم بیٹی، پورے ہال کے سامنے تماشہ بن گئی؛ وہ پُرہجوم ہال جہاں اس کی قابلیت کو سلام ہونا تھا، وہاں اس کی حرمت نیلام ہو گئی۔ نائب وزیر اعلیٰ سمرَت چودھری نے عجلت میں اس کا بازو روکنے کی کوشش کی، مگر اتنی دیر میں نقاب چھن چکا تھا، عزت مجروح ہو چکی تھی۔
یہ محض کسی بوڑھے سیاست دان کی “عادت” نہیں، یہ پورے نظام کی ذہنیت کا ننگا اظہار ہے۔ ویڈیو میں کچھ لوگوں کی دبی دبی ہنسی، تالیاں، اور اس کے درمیان ایک نوجوان مسلم ڈاکٹَرہ کی بے بسی — یہ سب مل کر بتاتے ہیں کہ اکثریتی مزاج میں مسلمان عورت کی ستر اور عصمت اب کوئی مقدس چیز نہیں، ایک “شوپیِس” ہے جسے جب چاہا کھینچ دو۔ RJD نے بجا طور پر سوال اٹھایا کہ “نتیش جی کو کیا ہو گیا ہے؟ ذہنی حالت خراب ہے یا سو فیصد سنگھی بن چکے ہیں؟” کانگریس نے اسے “گھٹیا حرکت” کہہ کر استعفیٰ کا مطالبہ کیا، مگر بات صرف استعفیٰ تک محدود نہیں؛ یہ اس پوری لبرل نقاب پوش سیاست کا کھلا اعترافِ جرم ہے جس کے پیچھے برسوں سے مسلمان ووٹوں کی سیاست چلتی رہی۔
وہی نتیش کمار جنہوں نے 2022 میں حجاب تنازعے کو “بہار میں نان ایشو” کہا تھا، آج اسی بہار میں ایک مسلم عورت کا نقاب سرِعام چھین رہے ہیں۔ اس وقت وہ کہتے تھے کہ “ہم مذہبی جذبات کا احترام کرتے ہیں، کسی کے رہن سہن میں مداخلت نہیں کرتے”؛ آج ان کے ہاتھ ایک مسلم بیٹی کے چہرے پر ہیں، اس کے نقاب پر ہیں، اس کی خود مختاری پر ہیں۔ دوغلے معیار کی ایسی زندہ مثال شاید ہی ملے
نتیش کی سائیکل اسکیم، لڑکیوں کی پڑھائی، سوشل جسٹس کی تقریریں — سب کا سارا بوجھ ایک لمحے کے اس عمل نے اتار پھینکا۔ حقیقت یہ ہے کہ بہار میں مسلمانوں کی آبادی تقریباً 17 فیصد سے زیادہ ہے، مگر ان کے تعلیمی، معاشی اور سماجی حالات اب بھی کمزور ہیں، اور سیاسی طور پر انہیں ہمیشہ پاور گیم میں مہرہ بنا کر استعمال کیا گیا ہے۔ جب ایک وزیر اعلیٰ کو یہ جسارت ہو جائے کہ وہ سرکاری اسٹیج پر نقاب کھینچنے میں خود کو حق بجانب سمجھے، تو سمجھ لیجیے کہ صرف ایک عورت نہیں، پوری قوم کو پیغام دیا جا رہا ہے: “تمہاری عزت ہمارے رحم و کرم پر ہے”۔
یہ وہ مقام ہے جہاں بہار کے مسلمانوں کو جذباتی ردِ عمل سے آگے بڑھ کر منظم، سنجیدہ اور متحد لائحہ عمل اختیار کرنا ہوگا۔ ہر محلے کی مسجد، ہر مدرسہ، ہر تنظیم — چاہے وہ مُسلم پرسنل لا بورڈ ہو، جماعت اسلامی ہو، علما کی انجمن ہو یا اسٹوڈنٹس کے فورمز — سب کو اس واقعے کو ایک مشترکہ “ریڈ لائن” قرار دینا چاہیے۔ جہاں مسلمان لڑکیوں کے نقاب پر ہاتھ اٹھے، وہاں سے سیاسی “ایڈجسٹمنٹ” کی گنجائش ختم ہو جانی چاہیے۔
نتیش کمار، تیرا “سشاسن” مسلم بیٹی کی بے عزتی پر کھڑا نہیں رہ سکتا۔ عوامی معافی، نصرت پروین سے شخصی معذرت، اور واضح عہد کہ آئندہ کوئی مسلم عورت کے لباس، عقیدے یا شناخت پر ہاتھ نہیں اٹھائے گا — یہ کم سے کم تقاضا ہے، ورنہ تاریخ تجھے اس جرم کے ساتھ یاد کرے گی۔
لیکن تصویر کا روشن رخ یہ ہے کہ اگر بہار کے مسلمان اس واقعے کو نقطۂ آغاز بنا کر ایک دوسرے کا ہاتھ تھام لیں، تو اس سے کئی مثبت اور دور رس نتائج سامنے آ سکتے ہیں:
– سیاسی طور پر: اگر تمام مسلم ووٹ بینک، جو اب تک مختلف جماعتوں میں تقسیم رہا، متفقہ طور پر ان قوتوں کے خلاف کھڑا ہو جو مسلم حرمت کو پامال کرتی ہیں، تو JD(U)–BJP اتحاد کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ سکتی ہے۔ 17 فیصد سے زائد متحد ووٹ کسی بھی حکومت کے بننے یا گرنے میں فیصلہ کن کردار ادا کر سکتے ہیں۔
– سماجی طور پر: نصرت پروین کا واقعہ اگر بہار کے ہر گھر، ہر محلے اور ہر تعلیمی ادارے میں بحث کا عنوان بنے، تو مسلمان اپنی بیٹیوں کی تعلیم اور عزت دونوں کے تحفظ کے لیے باوقار پروگرام بنا سکتے ہیں — قانونی امداد کمیٹیاں، خواتین کے لیے پروٹیکشن نیٹ ورک، اور ایسے پلیٹ فارم جہاں مسلم عورت خود بولے، ڈرے نہیں۔
– اخلاقی و دینی طور پر: قرآن کا حکم “واعتصموا بحبل اللہ جمیعاً” اس وقت عملی شکل میں تبھی آئے گا جب ذات، مسلک، جماعت اور چھوٹے بڑے اختلاف بھلا کر ایک صف میں کھڑے ہوں۔ اس اتحاد سے نوجوان نسل کو یہ پیغام جائے گا کہ عزتِ نفس پر سودے بازی جائز نہیں، چاہے کرسی کتنی بڑی ہو۔
اگر بہار کے مسلمان آج بھی خاموش رہے، تو کل نقاب کے بعد ڈاڑھی، پھر اذان، پھر شریعت — سب پر سوال اٹھیں گے۔ اگر آج متحد ہو گئے، تو اس ایک واقعے کو، جس میں ایک وزیر اعلیٰ نے منبر سے جھک کر ایک بیٹی کا نقاب چھینا، وہیں سے اس کے سیاسی زوال اور مسلم خود اعتمادی کے عروج کا نقطۂ آغاز بنایا جا سکتا ہے۔ مسلم اتحاد صرف نتیش یا BJP کے خلاف ردِ عمل نہیں، اپنی آئندہ نسلوں کے لیے عزت، آزادی اور خود داری کی ضمانت ہے۔



