لداخ کی Gen-Z نے بی جے پی دفتر کیوں جلایا؟ غصہ کس بات کا تھا؟ اصل میں ہوا کیا تھا ؟ پڑھیں تفصیلی رپورٹ

بدھ کے روز لداخ کے لیہ شہر میں تشدد بھڑک اٹھا، جب مظاہرین نے بی جے پی کے دفتر اور سی آر پی ایف کی وین کو آگ کے حوالے کردیا۔ اس واقعے میں کم از کم چار افراد ہلاک ہوئے جبکہ لیہ میں کرفیو نافذ کردیا گیا۔ گزشتہ کئی ہفتوں سے لداخی شہری پُرامن بھوک ہڑتال پر بیٹھے تھے، مگر بدھ کے روز مظاہرین نے جارحانہ رخ اختیار کیا۔
اس تحریک کی قیادت مشہور لداخی سماجی کارکن سونم وانگچک کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ نوجوان نسل کے جذبات ابھل کر باہر آئے اور یہی وجہ ہے کہ یہ سب کچھ ہوا۔
“یہ Gen-Z کی بغاوت تھی، اسی لیے وہ سڑکوں پر اُتر آئے۔” بڑے احتجاج اور بند کے دوران نوجوانوں کے ایک گروپ نے پتھراؤ شروع کیا، جس کے بعد پولیس نے آنسو گیس کے شیل پھینکے اور لاٹھی چارج کیا۔ جھڑپ میں چار افراد جاں بحق ہوئے جبکہ تقریباً 70 زخمی ہوئے۔ مزید کشیدگی نہ بڑھے اس لیے حساس علاقوں میں اضافی سکیورٹی فورسز تعینات کر دی گئی ہیں۔
بھوک ہڑتال پر بیٹھے 15 افراد کی حالت بگڑنے پر انہیں اسپتال منتقل کرنا پڑا اور اسی وجہ سے بدھ کو لداخ بند کی کال دی گئی۔
یاد رہے کہ 2019 میں آئین کے آرٹیکل 370 کو منسوخ کر کے جموں و کشمیر کو تقسیم کیا گیا اور لداخ کو الگ مرکز کے زیر انتظام خطہ قرار دیا گیا۔ مگر جموں و کشمیر کے برعکس لداخ میں اسمبلی تشکیل نہیں دی گئی، اور یہ خطہ براہِ راست مرکز کے کنٹرول میں رہا۔ اسی کے بعد سے ریاستی درجے کی بحالی، چھٹی شیڈول کے تحت آئینی تحفظ، قبائلی شناخت اور نازک ماحولیاتی نظام کے تحفظ کے لیے زیادہ مقامی خودمختاری کی مانگ کرتے ہوئے لداخ میں کئی تحریکیں جاری ہیں۔
لداخ تحریک کے پانچ اہم نکات
1. لوگ احتجاج کیوں کر رہے تھے؟
سونم وانگچک کی قیادت میں ایک گروپ نے 10 ستمبر سے بھوک ہڑتال شروع کی تھی۔ ان کا مطالبہ تھا کہ لداخ کو چھٹی شیڈول میں شامل کیا جائے اور ریاستی درجہ دیا جائے۔ وانگچک نے بدھ کو ایک ویڈیو پیغام میں کہا: “یہ نوجوان نسل کے بھڑکے ہوئے جذبات تھے، جو انہیں سڑکوں پر لے آئے۔ گزشتہ پانچ برس سے وہ بے روزگار ہیں، بار بار نوکریوں سے محروم کیے جا رہے ہیں، اور لداخ کے مطالبات اب تک پورے نہیں ہوئے۔ یہی سماجی بے چینی کی جڑ ہے۔ یہ صرف ہمارے حامی نہیں بلکہ پورا لداخ ہمارے ساتھ ہے۔”
انہوں نے مزید کہا: “میں نوجوانوں سے کہتا ہوں کہ تشدد کی راہ نہ اپنائیں؛ اس سے ہماری پانچ برس کی جدوجہد ضائع ہو جائے گی۔ ہمارا مقصد پُرامن طریقے سے اپنی آواز حکومت تک پہنچانا ہے۔” مرکز اور لداخ کے نمائندوں کے درمیان اگلا دور 6 اکتوبر کو ہوگا، جس میں لیہ اپیکس باڈی (LAB) اور کارگل ڈیموکریٹک الائنس (KDA) شامل ہوں گے۔
چھٹی شیڈول میں آسام، میگھالیہ، تریپورہ اور میزورم کے قبائلی علاقوں کو خودمختاری دی گئی ہے۔ ان علاقوں میں زمین، جنگلات اور مقامی انتظامیہ پر قانون بنانے کے اختیارات ہوتے ہیں تاکہ قبائلیوں کے حقوق و روایات محفوظ رہ سکیں۔ لداخ کی تقریباً 97 فیصد آبادی درج فہرست قبائل پر مشتمل ہے۔
2. بدھ کے احتجاج کی قیادت کس نے کی؟
ریاستی درجہ اور چھٹی شیڈول میں شمولیت کے مطالبے کے لیے لیہ اپیکس باڈی (LAB) نے لیہ میں احتجاج کی قیادت کی۔ اس میں مذہبی، سماجی اور سیاسی گروہ شامل ہیں۔ سونم وانگچک LAB کے رکن ہیں اور انہوں نے دیگر اراکین کے ساتھ بھوک ہڑتال بھی کی تھی۔
دہلی کے بعض اخبارات کے مطابق، منگل کو ایک بزرگ عورت اور ایک شخص بیہوش ہوئے تو LAB کی یوتھ وِنگ نے بدھ کو لیہ میں بند کی کال دی۔ اسی دوران LAB کے کارکنوں نے بی جے پی دفتر کے باہر بڑا مظاہرہ کیا اور بعد میں دفتر کو آگ لگا دی۔ اس تحریک میں کارگل ڈیموکریٹک الائنس (KDA) نے بھی حصہ لیا۔
3. بی جے پی کانگریس کو کیوں ذمہ دار ٹھہرا رہی ہے؟
بی جے پی لیڈر امیت مالویہ نے سوشل میڈیا پر تصاویر و ویڈیوز شیئر کر کے کانگریس پر الزام لگایا کہ ان کا کارکن فسادات میں شامل تھا۔ ان کے مطابق کانگریس کے کونسلر فنتسگ اسٹینزِن تسیپگ نے ہجوم کو بھڑکایا۔
دوسری طرف کانگریس کے ایک رہنما نے کہا: “سونم وانگچک کی بھوک ہڑتال کے بعد آج Gen-Z نوجوان بڑی تعداد میں سڑکوں پر اُترے اور بی جے پی کو حقیقت دکھا دی۔”
4. Gen-Z کا دعویٰ
بہت سے صارفین نے لیہ کے احتجاج کو Gen-Z کی بغاوت قرار دیا۔ کچھ نے اس کی مثال نیپال کے حالیہ احتجاج سے دی، جہاں Gen-Z نے اولی حکومت گرائی تھی۔ تاہم سونم وانگچک نے افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہا: “لیہ میں جو ہوا وہ نہایت افسوسناک ہے۔ میرا پُرامن جدوجہد کا پیغام ناکام ہو گیا۔ نوجوانوں سے گزارش ہے کہ یہ حماقت بند کریں، اس سے تحریک کو نقصان ہوگا۔”
5. بدھ کے روز اصل میں کیا ہوا؟
ریاستی درجہ اور چھٹی شیڈول کے مطالبے پر احتجاج بدھ کو لیہ میں پُرتشدد ہوگیا۔ وانگچک نے 15 روزہ بھوک ہڑتال ختم کرتے ہوئے کارکنوں کو عدم تشدد کا پیغام دیا تھا، مگر طبیعت بگڑنے کے باعث مظاہرین نے فوری مذاکرات کا مطالبہ کیا۔
ہزاروں افراد لیہ کی سڑکوں پر اُتر آئے۔ بی جے پی دفتر اور ہل کونسل پر پتھراؤ کیا گیا۔ پولیس و نیم فوجی دستوں نے آنسو گیس اور لاٹھی چارج کیا۔ بی جے پی دفتر اور کئی گاڑیوں کو آگ لگا دی گئی۔ شہر میں کرفیو اور دفعہ 163 کے تحت پابندیاں نافذ کی گئیں۔
اس تشدد کے بعد دو روزہ سالانہ لداخ فیسٹیول کو “ناگزیر حالات” کے باعث منسوخ کر دیا گیا، جس پر مقامی فنکاروں اور سیاحوں سے معافی مانگی گئی۔